ایک معیاری افسانے کے لیے بنیادی اور لازمی عناصر میں سب سے اہم اس کا موضوع ہے، جس کی بنا پر افسانہ، افسانہ کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے۔ ہمارے اردگرد بہت سے واقعات موجود ہیں جنہیں افسانے کا موضوع بنایا جا سکتا ہے۔ موضوع کے لحاظ سے افسانے کی کئی اقسام ہیں۔ نفسیاتی، معاشی، معاشرتی، سیاسی، جنسی، مزاحمتی وغیرہ وغیرہ۔
انسان کی فطرت میں یہ بات داخل ہے کہ وہ اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعات دوسروں کو بتانے کی کوشش کرتا ہے۔ بتانے، کہنے اور سننے کے عمل نے بالآخر کہانی کا روپ اختیار کر لیا اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ ایک ترقی یافتہ کہانی وجود میں آ گئی۔ زمانے کے ساتھ ساتھ موضوعات میں تنوع پیدا ہوتا گیا۔ اصلاحی، معاشی، معاشرتی، عشق و محبت اور زندگی سے جڑے ہوئے دوسرے موضوعات کہانیوں میں پیش کیے جانے لگے، جنہیں لوگ اب تک دلچسپی سے پڑھ رہے ہیں۔
کہانی قدیم زمانے کی جب کہ افسانہ جدید دور کی تخلیق اور تحقیق ہے۔ اس طرح کہانی جاگیردارانہ اور افسانہ صنعتی دور کا عکاس ہے۔ افسانہ میں عموماً مکالمے، ڈرامے اور ناول کے برعکس ضرورت کے وقت استعمال کیے جاتے ہیں۔ دوسری سب سے اہم بات یہ کہ ہر وہ موضوع جو زندگی سے قریب تر ہو، افسانے کا موضوع ہو سکتا ہے۔ کہانی افسانے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اور جب کہانی کو فنی خوبیوں کا جامہ پہنا دیا جائے، تو یہ پلاٹ کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ کہانی کا دورانیہ جتنا بھی ہو اُسے افسانے کا نام دیا جا سکتا ہے لیکن اس کے لیے افسانے کی فنی خوبیوں اور لوازمات پر پورا اترنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اگر کوئی کہانی ان لوازمات اور فنی خوبیوں پر پوری اترے، تو اسے اس وقت افسانہ کا نام دیا جاتا ہے لیکن اگر کوئی کہانی ایک خاص ترتیب میں نہ ہو، پلاٹ اس میں نہ ہو، واقعات ایک دوسرے سے پیوست نہ ہوں، تو یہ افسانویت کے دائرے میں شمار نہیں ہوگی۔ کہانی افسانہ کے لیے ایک لازمی اور ضروری جز ہے۔ کہانی کے بغیر افسانے کا وجود ہی نہیں ہے۔ کہانی میں فکری عنصر پیدا کرنے کے لیے سب سے ضروری چیز موضوع ہے اور کہانی کے فن میں اتنی وسعت موجود ہے کہ تھوڑی سی محنت سے ایک واقعہ یا کردار افسانے کا موضوع بن سکتا ہے اور افسانہ نگار اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کی بدولت اسے ایک اچھے افسانے کی شکل میں منتقل کر سکتا ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ افسانے کے لیے ایک ایسا موضوع درکار ہوتا ہے، جو زندگی کی حقیقتوں سے ہم آہنگ ہو۔ افسانے کا موضوع زندگی کے چھوٹے بڑے واقعے پر مبنی ہوتا ہے۔ یہ واقعہ سچائی پر مبنی ہو یا خیالی واقعہ ہو، لیکن اسے پیش کرنے کا طریقہ ایسا ہونا چاہیے کہ سچائی اور حقیقت سے قریب تر ہو۔ کیوں کہ بعض اوقات افسانہ نگار کو اچانک ہی کوئی خیال کسی واقعہ کا کردار نظروں کے سامنے آ جاتا ہے اور وہ اس پر قلم اٹھا لیتا ہے لیکن اس کے لیے اسے اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لانا پڑتا ہے اور اسے اپنے خیالات کو ایسے فنکارانہ طریقے پر پیش کرنا ہوتا ہے کہ اس سے ایک دل لبھانے والی کہانی بن جائے اور پڑھنے والے کو متاثر کیے بغیر نہ چھوڑے۔ اگر کوئی کہانی پڑھنے والے کے جذباتی اور ذہنی سرمایہ سے ہم آہنگی نہ رکھتی ہو، تو اسے افسانے کا مقام دینا سراسر ناانصافی ہے۔ افسانے کے لیے کہانی، موضوع کا انتخاب تب ممکن ہے اور وہی افسانہ نگار اس معیار پر پورا اتر سکتے ہیں جن کا مشاہدہ وسیع ہو، وہ اپنے میدانِ علم کا بہتر شہسوار ہو اور جسے اپنے موضوع پر مکمل عبور حاصل ہو۔
سید وقار عظیم کے مطابق: ’’مطلب یہ ہوا کہ اللہ پاک نے اس جہاں میں بہت سی چیزیں پیدا کی ہیں جو افسانے کے لیے موضوع بن سکتی ہیں۔‘‘
افسانہ چوں کہ ہماری زندگی کے کرداروں کی عکاسی کرتا ہے، اس لیے زندگی سے کوئی بھی موضوع افسانے کے لیے منتخب کیا جا سکتا ہے۔ کتنے ہی موضوعات ہماری زندگی میں ہاتھ پھیلائے رہ جاتے ہیں اور ہم موضوعات کی تلاش میں دنیا بھر کی خاک چھانتے پھرتے ہیں، لیکن یہ افسانہ نگار پر منحصر ہے کہ وہ موضوع کو کس کامیابی سے پیش کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے؟ ایک اچھا افسانہ نگار پامال سے پامال موضوع میں تنوع پیدا کر کے اسے کامیابی سے پیش کر سکتا ہے۔
عظمت ہما لکھتے ہیں: ’’ادب زندگی اور زندگی سے متعلقات کی عکاسی کرتا ہے اور افسانہ ان حقائق کو پیش کرنے کی ایک کامیاب صنف ہے۔ افسانہ وہ آئینہ ہے جس میں ہم زندگی کے مختلف پہلوؤں و کرداروں، حالات اور واقعات کی متحرک تصویریں دیکھ سکتے ہیں۔ افسانہ لکھنے کے لیے سب سے پہلا قدم گردو پیش کی زندگی سے موضوع کا انتخاب ہے۔‘‘
ہمارا تعلق خواہ جس معاشرے سے بھی ہو، ہم اپنی زندگی میں مختلف حالات، واقعات اور حقائق کا سامنا کرتے ہیں۔ یہ حالات اور واقعات کبھی ہماری خارجی زندگی سے متعلق ہوتے ہیں، تو کبھی انسان کی اپنی ذات سے تعلق رکھتے ہیں۔ جسے داخلی زندگی کا نام دیا جاتا ہے۔ ادب ہماری زندگی اور زندگی سے متعلق تمام پہلوؤں کی عکاسی کرتا ہے۔ افسانہ ان تمام پہلوؤں کو اپنے فنی سانچے میں منطقی ترتیب کے ساتھ پیش کرنے کا نام ہے۔ افسانہ لکھنے کے لیے سب سے پہلا قدم اپنی آس پاس کی زندگی سے موضوع کا انتخاب ہے۔ موضوع کے انتخاب کے بعد مواد کی فراہمی کا آغاز ہوتا ہے۔ افسانہ نگار کو چاہیے کہ وہ زندگی کے صرف ان حقائق کو اپنے افسانے کا موضوع بنائے جس سے اس کا قریبی تعلق ہو، جس کا مشاہدہ اس نے قریب سے کیا ہو اور جنھیں اپنے احساس اور فکر میں رچا کر تجربے کا جز بنایا ہو۔
افسانے میں فکری عنصر پیدا کرنے کے لیے سب سے ضروری چیز موضوع ہے۔ اس کے لیے ایک ایسا موضوع درکار ہوتا ہے جو زندگی کی حقیقتوں سے ہم آہنگ ہو۔ افسانے کا موضوع زندگی کے چھوٹے بڑے واقعات پر مبنی ہوتا ہے۔ یہ واقعہ حقیقی یا خیالی ہو سکتا ہے، لیکن خیالی واقعے کو بھی حقیقت کے قریب ہونا چاہیے۔
بعض اوقات ایک افسانہ نگار غیر ارادی طورپر قلم اٹھا لیتا ہے۔ اس مقام پر اسے اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لانا پڑتا ہے۔ اگر کوئی افسانہ قاری کو متاثر نہ کر سکے، تو اسے افسانے کا درجہ دینا سراسر زیادتی ہے۔ افسانے کے لیے موضوع کے صحیح انتخاب کی خاطر افسانہ نگار کا وسیع مشاہدہ اور موضوع پر مکمل عبور ہونا ضروری ہے۔ کائنات میں بہت سے موضوعات موجود ہیں لیکن اس کے لیے افسانہ نگار کی وسعتِ نظر چاہیے۔ معیاری افسانہ لکھنے کے لیے موضوع کا انتخاب، اس کے بارے میں علم اور واقفیت ہی ایک افسانہ نگار کو اچھا بنا سکتے ہیں۔
افسانہ نگاری کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ افسانہ مختصر ہونا چاہیے۔ کیوں کہ افسانہ کی تعریف ہی یہی ہے کہ وہ مختصر کہانی ہو۔ انگریزی میں افسانہ کے لیے Short Story کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ جس کے مطابق اس کی فضا بہت محدود اور مختصر ہوتی ہے۔ اختصار افسانے کی اہم خصوصیات میں سے ایک ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ان باتوں سے افسانہ میں اجتناب کیا جائے جو غیر ضروری ہوں۔ البتہ ان باتوں کو جگہ دی جائے جو افسانہ کو افسانہ بنا کر اس کے حسن اور فن میں خوبصورتی کا باعث بنیں۔ غیر ضروری باتیں افسانے کی وحدت تاثر کو بھی متاثر کرتی ہیں۔ اس لیے افسانہ کے موضوع کے انتخاب میں اس بات کا خیال رکھا جائے کہ وہ زیادہ طوالت نہ پکڑے۔
ایک افسانہ نگار کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان تمام اجزا کو ایک فطری انداز میں ایک دوسرے سے پیوست کرے اور اس طرح کثرت میں وحدت کا جلوہ دکھائے۔ افسانے کا موضوع چاہے کچھ بھی ہو لیکن فنی لحاظ سے کہانی میں وحدت تاثر پیدا کرنا ہے۔ افسانہ، پلاٹ، کردار اور پس منظر پر مبنی ہوتا ہے۔ انہی تینوں پر افسانہ نگار زیادہ زور دیتا ہے اور یہی چیزیں وحدت تاثر کو قائم رکھنے میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔ وحدت تاثر ہی پر افسانہ میں بہت زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ اگر افسانہ میں وحدت تاثر کو قائم نہ رکھا جائے، تو افسانے میں بدمزگی پیدا ہو گی۔
افسانہ کے موضوع کے انتخاب کے لیے مشاہدہ کا گہرا ہونا ضروری ہے۔ کسی افسانہ نگار کا مشاہدہ جتنا گہرا ہوگا، اتنا اس کے پاس موضوعات زیادہ ہوں گے۔ ویسے تو زندگی کے ہر موڑ پر افسانہ کے لیے کوئی نہ کوئی موضوع ضرور ہوتا ہے لیکن اس کا انتخاب اور اسے صحیح طریقے سے پیش کرنا ہی اصل فن ہے اور یہی افسانہ لکھنے میں سب سے مشکل کام ہے۔ موضوع کے انتخاب کے لیے موضوع سے واقفیت بھی ضروری ہے۔ اس کے لیے مواد کا اکٹھا کرنا بھی بہت اہم ہے۔ معیاری افسانہ لکھنے کے لیے موضوع کے انتخاب، اس کے بارے میں علم سے واقفیت ہی ایک افسانہ نگار کو بہتر افسانہ نگار بنا سکتے ہیں۔ اگر کہانی افسانے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، تو پھر صحیح موضوع کا انتخاب بنیاد کے مترادف ہے۔ ایک کہانی خاص موضوع رکھتی ہے اور یہی موضوع کہانی کے واقعات سے بنتا ہے۔ ان واقعات کا اجتماع، ترتیب یا تسلسل کہانی کا پلاٹ ہوتا ہے۔
چوں کہ زندگی بذاتِ خود ایک کھلی کتاب ہے اور اس کھلی کتاب کے ہر ورق پر کچھ نہ کچھ موضوع افسانہ لکھنے کے لیے موجود ہے۔ ہر انسان کا اپنا نظریۂ حیات ہے۔ مغربی لوگ اپنے نظریات کے مطابق زندگی بسر کر رہے ہیں جب کہ مشرقی لوگ اپنا نظریۂ حیات رکھتے ہیں۔ مسلمانوں کے پاس خدا کا وضع کردہ نظریۂ زندگی یہ ہے کہ دنیا کا جو بھی نظریہ اسلام کے اصولوں کے منافی ہو، وہ مسلمانوں کے لیے کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں۔ ایک آدمی چاہے کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو یا چاہے کتنا ہی کم تر کیوں نہ ہو، ماحول چاہے بہت اعلیٰ درجے کا ہو یا پستی میں گھرا ہوا ہو، افسانے کے لیے کوئی نہ کوئی موضوع ضرور رکھتا ہے۔
تہذیبی اور ثقافتی موضوعات پر لکھنے والے افسانہ نگاروں کے علاوہ جدید افسانہ نگاروں کا ایک ایسا کہنہ مشق گروہ بھی موجود ہے جو بعض نئے افسانہ نگاروں کے ساتھ مل کر ایسے افسانوی تجربوں میں مصروف ہے جو باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت افسانے میں کسی مستحکم استعارے کو کھولتے ہیں اور چلتے چلتے علامتیں بنا کر انہیں مزید تصویروں میں تقسیم کر دیتے ہیں اور جب افسانہ ختم ہوتا ہے، تو قاری کو معلوم ہوتا ہے کہ اس استعارے کا وجود ہی مشکوک تھا۔ چناں چہ ناتمام علامتیں بے جان ہیں اور تمام تصویریں بے رنگ۔ افسانہ تو دراصل اس افسانوی صورتحال کے پس منظر میں کہیں الجھ کر رہ گیا ہے۔ اس قسم کے افسانے کافی ڈرامائی انداز میں لکھے جاتے ہیں اور کافی سنسنی خیز بھی ہوتے ہیں لیکن ان میں خامی یہ ہوتی ہے کہ ان میں تجریدیت کا آزادانہ استعمال ہوتا ہے اور بعض اوقات غیر ضروری اور بے جا بھی، جس کے باعث ان میں غیر فطری کرب اور کسماہٹ بلند آہنگ ہوتی ہے جو پورے افسانے کو مصنوعی دوڑ دھوپ بنا کر رکھ دیتی ہے۔ گویا بقول شخصے حرکت تو تیز تر ہو لیکن سفر آہستہ آہستہ جاری ہو۔ اس قسم کے افسانوں کا بنیادی موضوع عموماً شہری زندگی ہوتا ہے۔ اس قسم کے افسانوں میں موضوعات نئے ہیں اور ہیئت کی شکلیں بھی نئی ہیں لیکن خامی صرف یہ ہوتی ہے کہ ان میں شہروں میں حقیقی زندگی کی بجائے جو کہ حقیقت نگار، افسانہ نگار موضوع بحث بنا چکے ہیں۔ شہری زندگی کا موضوع جو بظاہر عذاب لگتا ہے لیکن اندر سے کافی گھناؤنا ہے۔

……………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا لازمی نہیں۔