’’سوات میں انتہا پسندی کے چند محرکات‘‘ ڈاکٹر بدرالحکیم حکیم زیٔ کی کتاب کا نام ہے۔ اس سے ملتاجلتا نام ہماری پڑوسن تبسم مجید کی کتاب ’’سوات میں شورش‘‘ کا بھی ہے (جو اُن کے ایم فل ’’تعلقاتِ عامہ‘‘ کا تحقیقی مقالہ ہے، جسے فضل ربی راہیؔ نے انگریزی سے ترجمہ کرکے چھاپا ہے)۔ سوات میں دہشت گردی کا موضوع جب بھی سامنے آتا ہے۔ جسم پہ رونگٹے سے کھڑے ہوجاتے ہیں، لیکن بعض تلخ یادیں انسان سے ایسی جڑ جاتی ہیں جیسے جسم اور روح۔ جبھی تو وہ بلبلا کر کہتا ہے کہ
یادِ ماضی عذاب ہے یا رب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
مصنف، شاعر، ادیب اور محقق ہمارے معاشرے ہی کے ترجمان ہوتے ہیں۔ وہ جو کچھ بھی دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں، انہیں لفظوں کا جامہ پہناتے ہیں۔ میرؔ کو دیکھئے، تو دِلّی کی بربادی اُن کا بڑا موضوع رہا۔ ناصرؔ کاظمی بھی اُنہی سے متاثر تھے۔ لہٰذا تقسیم ہند کے فسادات کو انہوں نے موضوع بنایا۔ منٹو، بیدی، قاسمی اور اُس دور کے دیگر ہم عصر شعرا اور افسانہ نگاروں کو پڑھیں، تو ہندو مسلم فسادات پہ خامہ فرسائی کرتے نظر آتے ہیں۔ پشتو میں خوشحال کی شاعری میں تلوار کی دھار اورمغل استعمار پہ وار کی بات دکھتی ہے۔ آج کا منظر نامہ کچھ اور روپ بہروپ پیش کررہا ہے اور بدقسمتی سے مسلمان، افغان اور پٹھان ہی اس کا نشانہ بن رہا ہے۔
اب آتے ہیں ’’سوات میں انتہا پسندی کے چند محرکات‘‘ کی جانب، جس کے مصنف ڈاکٹر بدرالحکیم حکیم زیٔ ہیں۔ ڈاکٹر صاحب سے کچھ عرصہ قبل تک میری سرِ راہ ایک دو ملاقاتیں ہی ہوئی تھیں، جو ہائے ہیلو سے آگے نہ بڑھ سکیں۔ وہ (میرے کالموں کی وجہ سے) میرا نام تو جانتے تھے لیکن شکل سے نہیں پہچانتے تھے جبکہ میں نے بھی اُن کے متعلق سن رکھا تھا کہ وہ لفظوں کے دریچے کھولتے ہیں اور لب و لہجے میں خوشبو گھولتے ہیں۔

ڈاکٹر بدرالحکیم حکیم زئی کی فائل فوٹو (فوٹو: امجد علی سحابؔ)

آج بھی میری اُن سے تفصیلی ملاقات نہیں ہوئی لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ وہ لفظوں کے جادوگر ہیں۔اُن کے قلم سے تو کیا باتوں سے بھی پھول جھڑتے ہیں۔ وہ بیک وقت ادب، تاریخ اور لسانیات میں اپنی مثال آپ ہیں۔ وہ قلم قبیلے کے وہ راہی ہیں جو اپنی شیریں گفتار سے اپنی آواز کے جادو مختلف ریڈیائی پروگراموں میں بھی ظاہر کرکے اپنا لوہا منواچکے ہیں۔ سوات میں شورش اور یورش کے بعد ہوا کے دوش پہ نشر ہونے والے اُن کے یہ پروگرام زخموں پہ پاہوں کی مانندکام کرتے رہے۔ نیز آپ ’’سوات ادبی تڑون‘‘ نامی تنظیم کے چیئرمین بھی ہیں۔ پشتو ادبیات میں پی ایچ ڈی کے بعد آج کل آپ باچا خان یونیورسٹی میں پشتو ادبیات ہی کے پروفیسر ہیں۔ آپ کی شائع ہونے والی تصنیفات و تالیفات میں ’’تورونہ او سازشونہ‘‘ (ناول)، ’’دا مزے غوسول غواڑی‘‘ (افسانے)، ’’د ملالے ٹپہ‘‘ (افسانے)، ’’د اخون داد میاں دیوان‘‘ (تحقیق)، ’’زیرے‘‘ (تحقیق)، ’’دوست محمد خان دوستی گنجۃ الگواہری‘‘ (تحقیق)، ’’ہم دا اثر‘‘ (تحقیق) اور ’’سرتور فقیر‘‘ (تحقیق، زیر طبع) شامل ہیں۔

طبقاتی نظام، کرپشن، عدالتی کمزوریاں، وی آئی پی کلچر، زمینوں پہ چند خوانین کا ناجائز قبضہ، گجروں کے ساتھ زیادتیاں، غربت، بے روزگاری اور بے چینی وغیرہ ایسے محرکات ہیں جن کی وجہ سے اہالیانِ سوات جذبوں کے بجائے جذبات کے سرچشمے بن گئے ہیں۔ (فوٹو: امجد علی سحابؔ)

یہ الگ بات کہ اُن کی بعض پشتو لفظیات اور صوتیات پہ بعض لسانی اساتذہ کچھ تحفظات بھی محفوظ رکھتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ جو لفظ روزمرہ میں استعمال ہو رہا ہو، ضروری نہیں کہ ہم اُسے خواہ مخواہ گھسیٹ کر پشتو کے ثقیل رنگ ہی میں انفرادیت دیں۔ مثلاً ضروری نہیں کہ ہم ماچس کی تیلی کو ’’وورلیت‘‘ قلم، پین یا پنسل کو لیکانڑے اور موبائل کو گرزیندہ کہیں۔
جملہ معترضہ سے پہلو تہی کرکے کتاب کی طرف آتا ہوں۔ کتاب ہذا تین ابواب میں تقسیم ہے۔ پہلے باب میں ’’طبقاتی جبر‘‘ کے عنوان سے آپ نے محمود غزنوی اور یوسف زئیوں کی آمد اور پھر ریاستی و پاکستانی دور کا محاکمہ کیا ہے۔
دوسرے باب میں ’’سماجی نا انصافی‘‘ کے تحت ذیلی موضوعات میں ملکی ناقص پالیسیوں، ناقص نظامِ تعلیم، جھوٹی سیاست اور جرنیلوں کی مداخلت پہ خوب خامہ فرسائی کی گئی ہے جبکہ تیسرے باب میں ’’سواتیوں کی نفسیات‘‘ کے حوالے سے سواتیوں کی مذہبی ذہنیت، جذباتیت، مخاصمت، خاندانی تفاخر، تکبر اور حرص و ہوس جیسی بشری، سماجی، سیاسی اور نفسیاتی برائیوں کو بڑے سائنٹفک انداز میں پیش کرکے دھندلے آئینے سے دھول اور گرد صاف کرکے ہمارے سامنے رکھا ہے۔
آپ نے واضح کیا ہے کہ طبقاتی نظام، کرپشن، عدالتی کمزوریاں، وی آئی پی کلچر، زمینوں پہ چند خوانین کا ناجائز قبضہ، گجروں کے ساتھ زیادتیاں، غربت، بے روزگاری اور بے چینی وغیرہ ایسے محرکات ہیں جن کی وجہ سے اہالیانِ سوات جذبوں کے بجائے جذبات کے سرچشمے بن گئے ہیں۔
پروف کی کافی غلطیوں کے باوجود آپ نے سادہ اور رواں اسلوب میں سوات کی تہہ در تہہ تاریخ کو جس کمال ہنر مندی سے پرت درپرت کھولا ہے یہ آپ کی تحقیقی، تاریخی اور لسانی گرفت کا منھ بولتا ثبوت ہے۔ الغرض 107صفحات کی یہ مجلد کتاب اک تاریخی دستاویز ہے، جو سراہنے اور سراہے جانے کے قابل ہے۔

………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا لازمی نہیں۔