عربی زبان کا ایک مقولہ ہے: ’’المثل فی الکلام کا الملح فی الطعام‘‘ یعنی گفت گو میں ’’متل‘‘ کا کردار یوں ہے جیسے کھانے میں نمک کا۔ اگر کھانے میں نمک نہ ہو، تو وہ بے مزا اور پھیکا ہوتا ہے۔ اس طرح اگر گفت گو میں ضرب الامثال نہ ہوں، تو اس کا بھی مزا نہیں ہوتا۔ ضرب المثل کو پشتو زبان میں ’’متل‘‘ کہتے ہیں اور پشتو میں اس کی جمع ’’متلونہ‘‘ ہے۔ چارلس اننڈیل ضرب الامثال کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’’ضرب الامثال میں چھوٹے چھوٹے جامع مگر تیز اور چبھنے والے جملے ہوتے ہیں، جن میں انسانی تجربے اور مشاہدے ظریفانہ انداز میں بیان کیے جاتے ہیں۔‘‘ ضرب الامثال کسی قوم کے احساسات و جذبات، تہذیب و تمدن اور علمیت کی آئینہ دار ہوتی ہیں۔ پشتو زبان میں ضرب الامثال پر کافی کام ہوا ہے اور ان کے ڈھیر سارے مجموعے زیورِ طبع سے آراستہ ہوچکے ہیں، لیکن ڈاکٹر سلطان روم صاحب کا حال ہی میں شایع ہونے والا ضرب الامثال کا مجموعہ ’’متلونہ‘‘ چند امتیازی خصوصیات کا حامل ہے۔ اس مجموعہ کی امتیازی حیثیت چند باتوں کی بنا پر ہے، جن میں پہلی بات یہ ہے کہ اس میں درج شدہ ضرب الامثال کو عوامی زبان میں لکھا گیا ہے۔ ضرب المثل ایک عوامی صنف ہے اور عوام الناس کی پیداوار ہے اور عوام اس کو جس طرح استعمال کرتے ہیں، بالکل انھی کے لفظوں میں یہ مذکورہ مجموعہ لکھا گیا ہے، لیکن ساتھ ہی "فٹ نوٹ” میں اسے کتابی زبان یا کتابی پشتو میں بھی لکھا گیا ہے۔ اس لیے کہ بعض علاقوں میں مختلف ضرب الامثال الفاظ کے معمولی رد و بدل کے ساتھ استعمال کی جاتی ہیں۔ بعض دفعہ الفاظ کا یہ معمولی رد و بدل مفہوم میں تبدیلی پیدا کرتا ہے اور بعض دفعہ مفہوم ایک ہی رہتا ہے۔ مصنف نے ہرممکن کوشش کی ہے کہ ایک ہی ضرب المثل کو مختلف علاقوں کے لوگ جس طرح بولتے ہیں، اُسی طرح لکھی جائے۔ تیسری بات یہ ہے کہ ان ضرب الامثال میں مصنف کی ذاتی پسند و ناپسند بالکل شامل نہیں ہے اور پوری تحقیقی دیانت سے ہر قسم کی ضرب الامثال کو لکھا گیا ہے۔ ماسوائے ان کے جن میں بقول مصنف ’’غیر پارلیمانی زبان‘‘ استعمال کی گئی ہو۔
ضرب الامثال کا یہ مجموعہ فضل ربی راہیؔ کے زیر اہتمام شعیب سنز پبلشرز اینڈ بک سیلرز نے شایع کیا ہے۔ اس کی پروف ریڈنگ حنیف قیسؔ نے کی ہے۔ مصنف نے اس کتاب کا انتساب اپنے اساتذہ کے نام پر کیا ہے جس سے ان کی علمی قدردانی کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہ کتاب دو سو آٹھ صفحات پر مشتمل ہے۔ صفحہ پانچ پر ضرب الامثال کی حروف تہجی کی ترتیب سے ایک فہرست دی گئی ہے۔ اس کے بعد چند صفحات پر مصنف کا لکھا ہوا ’’سریزہ‘‘ درج ہے، جس میں ضرب الامثال اور ان کے ارتقاء کے بارے میں عالمانہ بحث موجود ہے۔ اس کے علاوہ سریزہ میں مصنف نے سوات میں کشیدگی کے دوران میں بہت تلخ تجربات اور حقایق کا ذکر کیا ہے۔

ڈاکٹر سلطان روم صاحب کی ضرب الامثال کا یہ مجموعہ لسانیات کے محققین کے لیے بھی کار آمد ثابت ہوسکتا ہے۔ کیوں کہ اس میں ہر ممکن حد تک عام لوگوں کی اصلی اور خالص زبان استعمال کی گئی ہے۔

جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا ہے کہ ضرب الامثال کسی قوم کے احساسات و جذبات اور تہذیب و تمدن اور علمیت کی آئینہ دار ہوتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان کی اہمیت سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا، لیکن خاص طور پر زبان، ادبیات، تاریخ اور سماجی علوم کے طالب علموں اور محققین کے لیے ان میں بہت کچھ ہوتا ہے۔ ضرب الامثال سے ہم کسی قوم کے تاریخی ارتقا، مذہب اور نفسیات کے بارے میں جان سکتے ہیں۔
ڈاکٹر سلطان روم صاحب کی ضرب الامثال کا یہ مجموعہ لسانیات کے محققین کے لیے بھی کار آمد ثابت ہوسکتا ہے۔ کیوں کہ اس میں ہر ممکن حد تک عام لوگوں کی اصلی اور خالص زبان استعمال کی گئی ہے۔ اس طرح اس میں مختلف علاقوں میں زبان اور لہجہ کی تبدیلی کے بارے میں بھی بہت کچھ ملتا ہے۔ کیوں کہ اس میں الفاظ کے معمولی تغیر و تبدل کا خیال رکھ کر ہر ضرب المثل کو شامل کیا گیا ہے۔ بعض ضرب الامثال ایسی ہوتی ہیں کہ تمام اہل زبان ان کو جانتے ہیں، لیکن بعض علاقائی قسم کی ہوتی ہیں، جو کسی خاص علاقہ کے رسم و رواج یا تاریخی واقعات کے پس منظر میں سامنے آتی ہیں۔ اس تناظر میں اگر دیکھا جائے، تو بہ قول مصنف اس مجموعہ میں زیادہ تر ایسی ضرب الامثال شامل ہیں، جو مصنف کو خود یاد تھیں یا لوگوں سے سنی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس میں علاقائی یا مقامی ضرب الامثال بھی زیادہ نظر آتی ہیں۔ اس علاقہ کی تاریخ اور تہذیب و ثقافت وغیرہ پر کام کرنے والے محققین کے لیے یہ ایک بیش بہا خزانہ ثابت ہوسکتا ہے۔ اس مجموعہ میں پشتونوں کے توہمات کے بارے میں بھی ڈھیر ساری ضرب الامثال شامل ہیں۔ مختلف موسموں کے نام اور ان کے اثرات کے بارے میں بھی کافی ضرب الامثال پائی جاتی ہیں مثلاً ’’چی سویل ٹس کی نو غوا بس کی، چی پگن شی نو دَ واورو ہنڈ شی، چی گوپ لہ تورے نہ شی او سویل لہ سمسورے نہ شی، ہغہ بہ شولے نہ شی، چیتر دے پہ تر تر دے۔‘‘

"متلونہ” کے مصنف سوات کے ثقہ تاریخ دان ڈاکٹر سلطان روم کی تصویر۔

ڈھیر ساری ضرب الامثال ایسی بھی ہیں کہ راقم نے ان کی وضاحت یا پس منظر جاننے کی ضرورت محسوس کی۔ مثلاً ’’چرتہ ہندوان چرتہ توتان‘‘ اور اسی طرح اور بھی بے شمار موجود ہیں۔ اس مجموعہ میں ایسی ضرب الامثال بھی موجود ہیں کہ ان میں سنسکرت کے الفاظ پائے جاتے ہیں۔ ان سے پشتو زبان کی قدامت اور پشتو اور سنسکرت کے لسانی روابط پر بھی بحث ہوسکتی ہے۔ مثلاً اس ضرب المثل میں لفظ ’’برم‘‘ یا ’’بھرم‘‘ سنسکرت لفظ ہے: ’’چی خزہ شی بے شرمہ میڑہ پرے باسی لہ برمہ۔‘‘
امید ہے کہ ڈاکٹر سلطان روم صاحب کی یہ کاوش پشتو زبان و ادب، تاریخ اور سماجیات کے طالب علموں اور محققین میں پزیرائی حاصل کرے گی۔

……………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔