غمی کاکا کو سرطان لاحق ہونے کی خبر کی کسی نے پروا نہیں کی۔ غمی کاکا کی وہ چھوٹی سی دوکان مجھے یاد ہے۔ ہم جب چھوٹے تھے، تو اُن سے چنے اور مونگ پھلی خریدا کرتے تھے۔ کبھی کبھار جب ہمارے والد بزرگوار نہ ہوتے، تو کاکا دریا دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بلامعاوضہ ہماری جیب مونگ پھلیوں سے بھر دیتے۔ کاکا کی زندگی دوکان سے شروع ہوتی اور مسجد پر آکر ختم ہوجاتی۔ میں نے انہیں کبھی عید کے روز بھی نئے کپڑے پہنے نہیں دیکھا تھا۔ خدا جانے انہوں نے شادی کیوں نہیں کی تھی؟ گاؤں میں ان کا کوئی رشتہ دار نہیں تھا، لیکن پڑوس کے گاؤں سے اکثر ایک لڑکا ان کے پاس آتا تھا، جسے وہ اپنا بھانجا گردانتے تھے۔

خدا جانے کاکا کے خون کے ساتھ سرطان کی کیا دشمنی تھی؟ اس موذی مرض کا پتا بھی نہ چلتا اگر کاکا کی رنگت وقت کے ساتھ ساتھ پیلی نہ پڑ جاتی اور اگر اس کی سانس نہ پھولتی۔ بسا اوقات سانس کچھ یوں اکھڑ جاتی جیسے یہ وجود کے اندر تنگ ہو۔ اسی دوران میں گمان گزرتا جیسے کاکا زندگی سے منھ موڑ کر بس جانے ہی والے ہیں۔
ان کا گھر بھی یہی دوکان تھا۔ وہ اپنے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا کھاتے تھے۔

میں جب کل کاکا کی دوکان کے سامنے سے گزر رہا تھا، تو انہوں نے آواز دی۔ میں نے سُنی، اَن سُنی کردی۔ اس لئے کہ ان کا اکھڑا ہوا دم نہیں دیکھ سکتا تھا۔ لیکن جونہی انہوں نے دوسری آواز دی، تو مجھے مجبوراً واپس ہونا پڑا۔ کاکا کی آنکھوں میں بے بسی کے آنسو، تاروں کی طرح جھلملا رہے تھے۔ میں نے انہیں تسلی دیتے ہوئے کہا کہ شام کو میں اپنے والد بزرگوار کے ساتھ آپ کے علاج کے حوالہ سے بات کروں گا۔ اتنا کہنا تھا کہ کاکا کی آنکھیں فرطِ مسرت سے ٹھیک اس طرح چمکیں، جس طرح کبھی ان کی دوکان سے مونگ پھلیاں خریدتے سمے میری چمک اٹھتی تھیں۔

خدا جانے کاکا کے خون کے ساتھ سرطان کی کیا دشمنی تھی؟ اس موذی مرض کا پتا بھی نہ چلتا اگر کاکا کی رنگت وقت کے ساتھ ساتھ پیلی نہ پڑ جاتی اور اگر اس کی سانس نہ پھولتی۔ بسا اوقات سانس کچھ یوں اکھڑ جاتی جیسے یہ وجود کے اندر تنگ ہو۔ اسی دوران میں گمان گزرتا جیسے کاکا زندگی سے منھ موڑ کر بس جانے ہی والے ہیں۔

سرشام جب کاکا کی بیماری کے حوالہ سے والد بزرگوار کو آگاہ کیا، تو پہلے تو انہوں نے کچھ دیر کے لئے خاموشی پر اکتفا کیا۔ پھر تھوڑی دیر بعد کہنے لگے: ’’بیٹا، کاکا کے علاج پر ڈھائی لاکھ کا خرچہ اٹھتا ہے اور میں حج کا فریضہ ادا کرنے جا رہا ہوں۔‘‘ میں نے ٹکڑا لگاتے ہوئے کہا کہ ’’اگر حج کی زیارت اگلے سال کی جائے، تو اس میں کیا قباحت ہوگی؟‘‘ یہ سنتے ہی گویا ان کے تن بدن میں آگ سی لگ گئی۔ دوسرے ہی لمحے ان الفاظ کی شکل میں مجھے جھاڑ پلائی کہ ’’تو پاگل ہوگیا ہے۔ خدا کے حق سے بھی بے خبر ہے۔ تیری اتنی پڑھائی کا کیا فائدہ، جب تو خدا کے حق سے بے خبر ہے۔‘‘

میں نے مجبوراً آنکھیں نیچے کیں۔

گاؤں کے لوگ اپنے اپنے کاموں میں جت گئے تھے۔ ٹھیک ایک ہفتہ بعدجس رات کو والدِ بزرگوار حج کی زیارت کے لئے روانہ ہو رہے تھے…… اسی صبح غمی کاکا زندگی کی بازی ہار گئے۔

یوں تو پورے گاؤں کی غمی خوشی کا بار والد بزرگوار نے اپنے کاندھوں پر اٹھا رکھا تھا، لیکن آج وہ خدا کا حق ادا کرنے گئے تھے اور میں بوجھل قدموں کے ساتھ کسی ہارے ہوئے کھلاڑی کی طرح کاکا کی دکان کی طرف جا رہا تھا۔

(نوٹ:۔ ڈاکٹر ہمدرد یوسف زے کے پختو افسانوں کے مجموعہ’’چیندرو‘‘ سے افسانچہ ’’دَ خدائی حق‘‘ کا اُردو ترجمہ، مترجم)