تحریر: اقبال حسین افکار 
1980ء کی دہائی میں پختونخوا کے مختلف علاقوں میں جہاں ہمارے شاعر اور ادیب پشتو زبان و ادب کی ترویج اور ترقی کے لیے سرگرمِ عمل تھے اور ان کی ادبی کوششیں زوروں پر تھیں…… اسی دوران میں مینگورہ سوات سے تعلق رکھنے والی شخصیت جناب فضل محمود روخان نے سوات کے یخ بستہ فضا کو ادبی تقریبات سے گرما کے رکھا تھا۔
جناب فضل محمود روخان پشتو اور اُردو کے ممتاز شاعر اور ادیب ہیں۔ 1984ء میں انہوں نے مینگورہ کو ’’سوات ادبی سانگہ‘‘ کے نام سے ایک ادبی شہر بنا کے رکھا۔ اسی کے زیرِ اہتمام سوات کے دیگر دور دراز علاقوں میں ادبی تقریبات کا اہتمام کیا کرتے تھے…… جس کی بدولت پورے سوات میں ادبی فضا قائم ہوئی۔
1980ء کی شروعات ہی میں جناب فضل محمود روخان کی تخلیقات مختلف اخبارات اور رسایل میں شایع ہونا شروع ہوئیں جس میں زیادہ تر نثری نظمیں اور تحقیقی مضامین اور کالم شامل ہوتے تھے۔ اسی کی بدولت شناسائی ہوئی اور دوستانہ تعلق بنا۔
اُس وقت کے سوات کی معروف ممتاز علمی و ادبی شخصیات میں جناب فیضانِ سوات، محترم پرویش شاہین، محترم ابراہیم شبنم، محترم رحیم شاہ رحیم اور محترم حنیف قیس شامل تھے۔ بعد ازاں ان متحرک ادبی شخصیات میں جناب عثمان اولسیار کے ساتھ ڈھیر سارے شاعر اور ادیب شامل ہوئے جو تخلیقی سرگرمیوں، ادب و ثقافت کے فروغ کے لیے وقتاً فوقتاً ادبی تقریبات کا اہتمام کرتے رہے۔
جناب فضل محمود روخان نے غیر سرکاری طور پر مینگورہ سے کامران خان مرحوم کے مالی تعاون سے پشتو کتابوں پر عظیم قومی و سماجی رہنما چچا کریم بخش کے نام پر ’’چاچا کریم بخش ایوارڈ‘‘ کا اجرا کیا…… جو کہ کئی سالوں تک جاری و ساری رہا۔ پشتونوں میں کتابوں پر دیا جانے والا یہ پہلا غیر سرکاری ایوارڈ تھا۔ شیلڈ کے ساتھ نقد رقم بھی دی جاتی تھی۔ یہ سلسلہ کئی سالوں تک جاری رہا۔ میرے خیال میں جناب کامران کی وفات کے ساتھ یہ احسن اقدام بھی مرحوموں میں شمار ہوا۔
جناب فضل محمود روخان نے نثری نظموں کا پہلا مجموعہ ’’رنڑے ملغلرے‘‘ (شفاف موتی) کے نام سے 1988ء شایع کیا۔ اس کے بعد اُردو اور پشتو زبانوں میں اُن کہ پے در پے درجِ ذیل کتب زیورِ طباعت سے آراستہ ہوکر منظر عام پر آچکی ہیں:
٭ اردو نثری نظموں کا مجموعہ ’’سجیل۔‘‘
٭ آدم او فلسفی۔
٭ تماشائے زندگی۔
٭ معصوم بابا کی کہانی ان کی زبانی۔
٭ سرہ پختانہ پہ شنو جامو کے۔
٭ خواگہ تراخہ۔
٭ د پختنو موسیقی۔
٭ د پوھے لٹون۔
اس کے ساتھ جناب فضل محمود روخان نے ’’مینہ‘‘ پشتو زبان میں اور اور اُردو زبان میں ’’ماہنامہ سوات‘‘ کے نام سے رسایل شایع کیے ہیں۔
مورخہ 12 جنوری 2022ء کو جب تھکا ہارا گھر آیا، تو میز پر پڑے جناب فضل محمود روخان کی کتابوں کے پارسل پر نظر جم گئی۔ بیٹھتے ہی پارسل کو کھولا جس میں دو خوب صورت کتابیں تھیں۔ انہیں دیکھتے ہوئے خوش ہوا کہ جناب فضل محمود روخان کی دیوانگی اسی طرح قایم و دایم ہے۔ ایک کتاب ان اُردو نثری نظموں کا مجموعہ ’’نیرنگِ زمانہ‘‘ ہے جو اُردو کے ساتھ انگریزی میں بھی ترجمہ کیا جاچکا ہے۔
دوسری کتاب سوات کی مذہبی، روحانی، ادبی اور سماجی شخصیات پر ان کے اُردو میں لکھے گئے مضامین کا مجموعہ ’’ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم‘‘ ہے۔ پہلی نظر میں، مَیں ایک روحانی شخصیت پر لکھے گئے مضمون کو پڑھنے سے لطف اندوز ہوا۔ کیوں کہ انداز اور اسلوب ادبی تھا۔ اس کے بعد کتاب کی فہرست پر نظر دوڑائی، تو جناب رحیم شاہ رحیم، ابراہیم شبنم، افضل خان لالہ اور شیر افضل خان بریکوٹی جیسی شخصیات کے نام نظر نہیں آئے۔ دل ہی دل میں سوچتا رہا کہ آخر اس کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟ یہ تو ہوہی نہیں سکتا کہ جناب فضل محمود روخان جیسے ادیب نے ان شخصیات پر طبع آزمائی نہیں کی ہو۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بہ امرِ مجبوری لکھے گئے مضامین شایع ہونے سے رہ گئے ہوں۔ کیوں کہ اس مرحلے سے حال ہی میں گزرا ہوں کہ پبلی کیشن ادارہ میری کتاب شایع کر رہا ہے۔ ڈیمانڈ میں 3 سو سے کم صفحات تھے اور میرے 30 شخصیات پر لکھے گئے مضامین کا حجم ساڑھے تین سو صفحات تھا، تو مجبوراً ان کو کم کرنا پڑا اور یوں چار شخصیات اس کتاب میں شایع ہونے سے رہ گئیں۔
بعد ازاں جب جناب فضل محمود روخان سے رابطہ ہوا، تو معاملہ وہی تھا جس کا ہم ذکر کرچکے۔ ایسے موقع پر جب کسی کتاب سے ایک شاعر، ادیب کے کچھ مضامین رہ جائیں، تو اس کا حال صاحبِ دل ہی جانتے ہیں۔
جناب فضل محمود روخان کی دونوں کتابیں معنوی، صوری حوالے سے دلچسپ، ادبی اور تخلیقی ہیں۔ مَیں ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ اس مادی دور میں ہمیں یاد کیا اور خوب صورت کتابوں کا تحفہ بھیجا۔
اللہ سے یہی دعا ہے کہ روخان صاحب زندہ و سلامت رہے، آمین!
…………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔