ترجمہ: ڈاکٹر روبینہ الیاس 
’’فرانز کافکا‘‘ (1883-1924) نے شادی نہیں کی تھی۔ 40 سال کی عمر میں وہ ایک دن برلن کے ایک پارک میں چہل قدمی کر رہے تھے…… جب انھیں ایک چھوٹی بچی ملی جو رو رہی تھی۔ پوچھنے پر اس نے بتایا کہ اس کی سب سے پسندیدہ گڑیا کھو گئی ہے۔ کافکا نے بچی کے ساتھ مل کر گڑیا ڈھونڈنے کی کوشش کی…… لیکن ناکام رہے ۔کافکا نے بچی سے کہا کہ وہ کل وہیں ملے اور وہ ایک مرتبہ پھر گڑیا ڈھونڈنے کی کوشش کریں گے۔
اگلے دن جب انھیں گڑیا نہیں ملی، تو کافکا نے بچی کو ایک خط دیا جو اس ’’گڑیا‘‘ نے لکھا تھا۔ خط میں لکھا تھا:
’’میری دوست، رو مت! مَیں دنیا گھومنے جا چکی ہوں…… اور مَیں تمھیں اپنے حیرت انگیز سفر کے بارے میں بتاؤں گی۔‘‘
یوں ایک ایسی کہانی کی ابتدا ہوئی جو کافکا کی زندگی کے اختتام تک جاری رہی۔ بچی سے ملاقاتوں کے دوران میں کافکا اس گڑیا کے خطوط پڑھتے جس میں حیرت انگیز سفر اور مزے مزے کی کہانیاں ہوتیں…… جسے وہ بچی اپنی گڑیا کے خطوط سمجھ کر پڑھتی اور اسے دلی سکون ملتا۔ بالآخر ایک دن کافکا نے اس بچی کو ایک گڑیا لا کر دی اور کہا کہ اس کی گڑیا دنیا کے سفر سے ’’برلن‘‘ واپس آ گئی ہے۔
بچی نے جواباً کہا کہ یہ گڑیا تو بالکل بھی میری گڑیا جیسی نہیں لگتی۔ کافکا نے بچی کو ایک اور خط دیا جس میں گڑیا نے لکھا تھا:
’’دنیا بھر کے سفر سے میں تبدیل ہوگئی ہوں۔‘‘
یوں چھوٹی معصوم بچی نے گڑیا کو گلے سے لگایا اور خوشی خوشی اپنے گھر لے گئی۔
ایک سال بعد کافکا کی موت ہوگئی۔ کئی سال بعد جب وہ بچی اپنی جوانی میں داخل ہوئی، تو ایک دن گڑیا کو الٹتے پلٹتے اسے اس کے اندر سے فرانز کافکا کا دستخط شدہ ایک خط ملا جس پر لکھا تھا:
’’ہر وہ چیز جس سے تم محبت کرتی ہو، ایک دن گم ہو جائے گی…… لیکن بالآخر تمھیں کسی اور شکل و صورت میں ہی سہی، لیکن محبت ضرور ملے گی۔‘‘