بچوں کے منظوم اور نثری ادب کے لیے استادِ محترم شجاعت علی راہیؔ صاحب کی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ انھوں نے نئی نسل کے لیے بلند معیار کی شاعری کی ہے اور نثر میں سیکڑوں کہانیوں کے علاوہ اب تک ایک درجن سے زیادہ ناولٹ تخلیق کیے ہیں۔ ان کی نگارشات کی خوبی یہ ہے کہ وہ نہ صرف اپنے اچھوتے موضوعات، دل چسپ اُسلوب اور تحقیقی کاوش سے متصف ہوتی ہیں بلکہ ان میں بچوں کی تعلیم و تربیت اور انھیں اعلا سماجی اقدار سے روشناس کرانے کا مقصد بھی کار فرما ہوتا ہے۔ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے اس جدید دور میں بچوں کے لیے بہت کم لکھا جا رہا ہے لیکن راہیؔ صاحب جیسے سینئر اور کہنہ مشق ادیب اور شاعر اس کمی کو پورا کرنے کے لیے ہمہ وقت مصروف عمل رہتے ہیں۔ اس حوالے سے ان کی خدمات یقینا قابل قدر و ستائش ہیں۔
’’سفید پرندوں کا جزیرہ‘‘ شجاعت علی راہیؔ صاحب کا بچوں کے لیے لکھا گیا نواں ناولٹ ہے جو حال ہی میں زیورِ طبع سے آراستہ ہوا ہے۔ ناول کا موضوع نہایت دل چسپ اور منفرد ہے۔ ناول کا مرکزی کردار ایک ایسے جزیرے میں جا بستا ہے جہاں وقت کی رفتار تھم جاتی ہے اور وہ سفید پرندوں کی معیت میں بڑھاپے سے واپس جوانی کا سفر شروع کرتا ہے اور اس کے کم زور ہوتے قوا، شباب کی توانائی میں ڈھل جاتے ہیں۔ اس ناولٹ کی کہانی دل چسپ بھی ہے اور اس میں عملی زندگی کے مصائب سے صبر و شکر کے ساتھ نبرد آزما ہونے کا درس بھی ملتا ہے۔
شجاعت علی راہیؔ صاحب ’’ناولٹ لکھنے کا مقصد‘‘ کے زیرِ عنوان نئی نسل کے لیے لکھے گئے اپنے ناولٹ کے مقاصد واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’نئی نسل کی تربیت، ذہنی پیشرفت اور دلچسپی کے لئے میں نے ایک درجن سے زیادہ ناولٹ تحریر کئے جن میں حسبِ ذیل باتوں کو پیشِ نظر رکھا۔
٭ نئی نسل کی اخلاقی تربیت کرنا اور زندگی کی حسین قدروں سے اُن کو آشنا کرنا۔
٭ ان میں مناظرِ فطرت سے وابستگی پیدا کرنا کیونکہ فطرت نہ صرف ہماری جمالیاتی حِس کو متاثر کرتی ہے بلکہ ہمیں دنیا کو خوب سے خوب تر بنانے کا درس بھی دیتی ہے۔
٭ بچوں کو تفریح کا سامان مہیا کرنا تاکہ وہ علم کے حصول کو ایک بوجھ نہ سمجھیں۔
٭ معلومات کی ترسیل کے لئے ادبی سبیل فراہم کرنا۔
٭ بچوں کے ذہن کی زرخیزی اور تخلیقی قوت کو متاثر کئے بغیر اُن کے دائرۂ علم کو بڑھانا اور اُن کے تحقیقی تجسس کو فزوں تر کرنا۔
٭ طلباء اور طالبات کے ذخیرۂ الفاظ میں اضافہ کرنا اور انہیں زباں و بیاں کی چاشنی سے روشناس کرنا۔
٭ انہیں کامیاب اور بہتر زندگی گزارنے کے لئے تیار کرنا تاکہ وہ معاشرے کی تشکیل میں مثبت کردار ادا کر سکیں۔
ہمارے بزرگوں نے ہمیں علم و ادب کی جن دل کش اقدار سے شناسا کرایا، وہ ایک ایسا فریضہ ہے کہ ہم اہلِ قلم جتنا بھی نئی نسل کے لئے لکھیں، اُس کا حق ادا نہیں کر سکتے ۔ تاہم اپنی سی کوشش کرتے رہنا چاہئے ۔‘‘
زیرِ تبصرہ ناولٹ کے بارے میں وہ آگے لکھتے ہیں:
’’سفید پرندوں کا جزیرہ‘‘ لکھنے کا مقصد ہے : بچوں میں فطرت سے محبت کا جذبہ ابھارنا ،
انہیں قدرتی آفات کا مقابلہ صبر و شکر کے ہتھیاروں سے کرنے کی حوصلہ افزائی کرنا اور اُن کے جذبۂ تجسس کو تقویت بخشنا۔

شجاعت علی راہیؔ کے ناولٹ ’’سفید پرندوں کا جزیرہ‘‘ کا ٹائٹل (فوٹو: فضل ربی راہی)

اپنی اِس تخلیقی کاوش کو میں نے اپنے عہد کی ایک جواں سال، جواں ہمت اور دردمند دل رکھنے والی شخصیت گُل افشاں رانا کے نام معنون کیا ہے جسے، بجا طور پر، معروف فکشن رائٹر تسنیم جعفری نے حقیقی زندگی جینے والی اور ماہرِ نفسیات قرۃ العین خرم ہاشمی نے ٹوٹے شیشوں کی مسیحا قرار دیا ہے۔ قوم کی اِس بہادر بیٹی نے اپنی جسمانی معذوری پر رونے جھینکنے کی بجائے ملک بھر میں وہیل چیئر پر بیٹھنے والے افراد کو جینے کا حوصلہ دیا اور فن سکھایا ہے۔گُل افشاں بیٹی نے ہم سب کو یہ بتایا ہے کہ زندگی کا حق کیسے ادا کیا جاتا ہے۔‘‘
ہم تو استاد گرامی شجاعت علی راہیؔ صاحب کی شفقت و محبت کے علاوہ ان کی خوب صورت تحریروں کے اسیر ہیں لیکن آپ بھی اگر ان کی کتابیں پڑھیں گے، تو یقینا ان کی دل چسپ اور اعلا ادبی معیار سے مزین تحریروں کے خوگر ہوجائیں گے ۔ راہیؔ صاحب کی بچوں کے لیے لکھی گئی دوسری کتابوں کی طرح نیا ناولٹ ’’سفید پرندوں کا جزیرہ‘‘ بھی شعیب سنز پبلشرز اینڈ بک سیلرز (سوات مارکیٹ، جی ٹی روڈ مینگورہ، سوات) کے زیرِ اہتمام بہت خوب صورت اور جاذبِ نظر گیٹ اَپ کے ساتھ شائع ہوا ہے۔ اسے پشاور میں یونی ورسٹی بک ایجنسی (خیبر بازار) اور اسلام آباد میں سعیدبک بینک (جناح سپر مارکیٹ) سے طلب کیا جاسکتا ہے۔
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔