جمیلہ ہاشمی کا ناولٹ ’’روہی‘‘ (1966ء) تکنیک اور موضوع کے لحاظ سے اپنی انفرادیت قائم کرتا ہے اور طرز ِ ادا کے لحاظ سے بھی اس میں جدت اور دلچسپی پیدا ہو گئی ہے۔
ناولٹ کے ایک کردار ’’بابا‘‘ کہانی کو دلچسپ اور فکر خیز بیانیہ کے انداز میں پیش کرتے ہیں۔ کہانی کا مرکزی کردار تو شیر دل (بابا کا پوتا) ہے، جو ہند پاک سرحد پر ایک فوجی ہے۔ ر وہی اس سرحدی علاقے کا نام ہے، جہاں پر خشک سالی کی وجہ سے قحط کا سامنا ہے اور یہاں کے لوگ نقلِ مکانی کر کے دوسرے علاقے میں چلے جاتے ہیں۔ پھر بارش کے موسم میں وہ یہاں پر چلے آتے ہیں۔ ’’بابا‘‘ ماضی کے واقعات داخلی خود کلامی اور بیانیہ کی تکنیک میں پیش کرتے ہیں۔ ناولٹ کا آغاز اور اختتام کہانی کو ایک مرکزی دھاگے میں پروتا ہے۔
ناولٹ کے نسوانی کرداروں میں ’’مریم‘‘ مرکزی کردار ہے، جو روہی میں اپنے باپ نور خاں کے ساتھ رہتی ہے۔ بلند خاں کے لڑکے عیسیٰ خان کے ساتھ اس کی شادی طے ہوتی ہے، جو ایک سپاہی ہے…… لیکن وہ سرحد پر دشمنوں کے حملے کی وجہ سے زخمی ہو کر آخرِکار مر جاتا ہے۔
’’بابا‘‘ شیر دل کو تلقین کرتے ہیں کہ وہ زندگی میں ذمہ دار اور باعمل رہ کر زندگی پر اپنا آپ ثابت کرے۔ شیر دل اپنے بابا کی اس ہدایت کو قبول کرتے ہوئے اُسے پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اُس نے مریم کے بارے میں سن رکھا تھا کہ وہ لڑکی نہیں بلکہ شیرنی ہے اور کوئی اُسے فتح نہیں کرسکتا۔ اس کے بعد وہ مریم پر اپنا آپ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے…… لیکن اس میں اُسے کوئی کامیابی نہیں ہوتی۔ دراصل مریم روہی کی ایک گنوار لڑکی ہے جواپنے جانوروں کو چراتی ہے اور جو اپنے خودساختہ غرور اور جاہلانہ انا میں گرفتار ہے اور جو انسانی جذبات و احساسات او ر تعلقات کو سمجھنے کی بھی اہلیت نہیں رکھتی۔ جب عیسیٰ خاں سے اس کی شادی طے ہو رہی تھی، تو و ہ اسے بھی کوئی خاص اہمیت نہیں دیتی۔
’’روزن میں سامنے وہ چبوترہ دکھائی دے رہاتھا جس پر مریم دودھ بلور رہی تھی۔ تھوڑی دیر میں، مَیں نے امرایا خاں اور عیسیٰ خاں کوگلی کی طرف آتے دیکھا۔ امرایا اپنی ماں کے پاس گوپے کے اندر چلا گیا۔ عیسیٰ خاں نے اِدھر اُدھر دیکھ کر ہولے سے مریم کو پکارا۔
مریم اُسے دیکھ کر ہولے سے اور پھر اپنے کام میں لگ گئی۔
عیسیٰ نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کیا۔ مریم نے پھر اُسے دیکھا اور یوں غصے سے دیکھا جیسے ابھی اس کے منھ پر تھپڑ مار دے گی اور قدم پٹختی بھیڑوں کی طرف چلی گئی۔
اس لڑکی کی بے پناہ قوتِ مدافعت اور بے نیازی نے مجھے مسحور کر دیا۔ عیسیٰ سے اس کی شادی ہونے والی تھی اور اس کے باوجود اس نے اپنے ہونے والے شوہر کی ذرا سی گستاخی بھی برداشت نہیں کی۔ مَیں چاہتا تھا کہ عیسیٰ کی جگہ میں ہوتا، تو اس کے دونوں بازو پکڑ کر مروڑ دیتا۔ مَیں مریم سے شادی کرنے کی تمنا رکھتاتھا۔‘‘
اور یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیے: ’’انگاروں پر سنکی اور شراب میں بھگوئی ہر ن کی ران کھا کر میں نے کہا: ’’گاری خاں! تم نے ایک بار کہا تھا مریم کسی سے ہار نہیں مان سکتی۔‘‘ گاری خاں نے کہا: ’’ وہ عیسیٰ خاں کو کچھ نہیں سمجھتی۔ وہ کسی سے نہیں دبتی اور دیکھ لینا بیا ہ کے بعدوہ شوہر کو بہت پریشان کرے گی۔ اس کی مرنے والی ماں بہت سادہ دل تھی اور مریم تو شیرنی ہے، شیرنی! میں شکاری آدمی ہوں نا، اس کی اداؤں کو سمجھتا ہوں۔ بستی کی اور لڑکیوں کی طرح اُس کا مزاج نہیں ہے۔ یوں ہنسنے، بولنے اور ناچنے میں اس کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتا۔‘‘
مذکورہ اقتباس سے مریم کے کردار کے نقوش بڑی حد تک واضح ہو جاتے ہیں۔ شیر دل مریم کے والد نور خاں سے بات کر کے مریم کے ساتھ اُس کی شادی کی بات کرتا ہے۔ وہ مریم سے بھی اُس کا تذکرہ کرتا ہے…… لیکن وہ اُس میں بھی کوئی خاص دلچسپی نہیں لیتی۔
شیر دل، مریم کے بھائی امرایا خاں سے بھی اس رشتے کا تذکرہ کرتا ہے، لیکن وہ بھی اُسے کوئی خاص اہمیت نہیں دیتا۔ کیوں کہ اُس کی بہن مریم کی شادی عیسیٰ خان سے طے ہوچکی تھی اور محض اتفاقاً یہ حادثہ واقع ہوا کہ عیسیٰ خان ایک حملے میں زخمی ہو کر فوت ہوگیا تھا۔
امرایا خاں، شیر دل سے مریم اور اس کے رشتے کی بات سن کر انسانی زندگی کے بارے میں گہری فلسفیانہ باتیں کرتاہے…… جو ایک گنوار کے منھ سے مناسب نہیں لگتی۔
صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ ناولٹ نگار نے شعوری طور پر فلسفیانہ اظہار کیا ہے۔ آخرِکار مریم شیر دل کو قبول نہیں کرتی او ر ناولٹ کی کہانی بابا کی خیالی رو کے ساتھ ہی ختم ہوجاتی ہے۔
ناولٹ نگار نے فطری مناظر کی تصویر کشی بہت ہی دلچسپ اور خوب صورت انداز میں کی ہے اور یہ مناظر بھی ناولٹ کے موضوع اور طرزِ اظہار سے ہم آہنگ ہو جاتے ہیں۔
جمیلہ ہاشمی ایک پڑھی لکھی ادیبہ ہیں۔ انہوں نے بیانیہ، خود کلامی اور شعوری رو کی تکنیک کو مشترکہ طور پر استعمال کرتے ہوئے یہ ناولٹ تحریر کیا۔
’’روہی‘‘ ایک خوب صورت صحرائی استعارہ ہے اور اس ناولٹ کی زبان بھی بہت خوب صورت ہے۔ مختصر یہ کہ یہ ایک بھرپور ناولٹ ہے۔
………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔