قارئین! آج میرا دیرینہ دوست شہید تصدیق اقبال بابو صاحب دوبارہ زندہ ہوگیا۔ دوبارہ جی اُٹھا۔ کیوں کہ آج اُس کی کتاب ’’میرے کالم‘‘ کے عنوان سے چھپ کر شائع ہوگئی۔
مجلد خوب صورت ٹائٹل کے ساتھ 533 صفحات پر مشتمل اس بھاری بھرکم کتاب کے ہر لفظ، ہر حرف اور ہر لکیر کے ساتھ بابو صاحب کی یادیں وابستہ ہیں۔ کتاب کے ٹائٹل اور بیک پیج پر بابو صاحب کی خوبصورت تصویر کے ساتھ اس کی اُردو غزلیں بھی سنواری گئی ہیں۔ اس غرض کے ساتھ کہ قارئین اور شائقین کو معلوم ہوجائے کہ بابو صاحب صرف کالم نویس نہیں بلکہ اُردو کے شاعر بھی تھے۔
مرحوم کی تین عدد غزلوں کے پڑھنے سے یہ اندازہ لگانا کوئی مشکل کام نہیں کہ وہ اُردو کے اچھے خاصے گم نام شاعر تھے۔ اگر زندگی نے وفا کی ہوتی، تو اُس کے بہت سے گمنام کارنامے طشت از بام ہوتے۔
قارئین، اس تاریخی کتاب کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے حصے میں بابو صاحب کے پسِ مرگ وہ کالم ہیں جو ہمارے کالم نگار دوستوں نے اُس کے رنج و الم اور تعزیت میں لکھے ہیں۔ اُس کے آگے صفحہ نمبر 323 تک اُردو کی کتابوں (نثر اور نظم) پر سیر حاصل دل چسپ تبصرے ہیں…… جو بابو صاحب کے سدا بہار قلم کے مرہونِ منت ہیں۔ آخری حصہ یعنی 325 تا 533صفحہ پشتو زبان کے نظم و نثر پر تحریر کیے گئے یادگاری کالم ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بابو مرحوم کو زبان و بیاں پر عبور حاصل تھا۔ الفاظ کا بر محل اور بر وقت استعمال جانتے تھے۔ آج بھی مدتوں بعد تحریر کی چستی، زبان کی تازگی اور شیرینی قائم و دائم ہے۔ آج بھی کالم پڑھتے ہوئے منھ میں حلاوت سی محسوس ہوتی ہے۔
کتاب میں تقریباً ایک سو چالیس ادیب، شاعروں کے فن پاروں پر یادگار تبصرے شامل کیے گئے ہیں۔ یہ ادیب اور شعرا ضلع سوات کے ساتھ ساتھ خیبر پختونخوا کے مختلف شہروں نیز پنجاب کے شہروں اور دیہاتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ بابو (مرحوم) کا حلقہ احباب بہت وسیع تھا، جس کسی نے بھی جہاں کہیں سے بھی کتاب دی ہے یا ارسال کی ہے، بابو صاحب نے اُس کی دل شکنی نہیں کی۔ اُس کی پذیرائی کی، حوصلہ افزائی کی اور اُسے ضرور اپنی تحریر سے تاریخ کا حصہ بنایا۔ اس کتاب کے مسودے کا انتخاب اُس نے اپنی زندگی میں کیا تھا۔ اس کے بعد کا مرحلہ یہ تھا کہ ڈھیر سارے کالم غائب تھے۔ ہماری کوشش تھی کہ ہر ایک کالم کو جگہ دی جائے، ایسا نہ ہو کہ کسی کے پر لکھے گئے کئی کالم چھپ جائیں اور کچھ اشخاص پر لکھا گیا ایک عدد بھی شائع ہونے سے رہ جائے۔ لہٰذا سب ادیبوں اور شعرا کے ایک ایک کالم کا انتخاب کیا گیا۔ سب کو حصہ دیا گیا اور سب کو یاد کیا گیا۔
کتاب شائع کرنا بہت مشکل کام ہے اور پھر ایک ایسی خاص کتاب جس کے ساتھ دوستی کا رشتہ وابستہ ہو، نا گہانی موت کے بعد یہ دوستی اور بھی نازک صورتِ حال اختیار کر جاتی ہے۔ کیوں کہ بعض اوقات ذمہ داری لینے کو تو کوئی تیار نہیں ہوتا، البتہ تنقید اور اعتراض کے لیے اچانک مرحوم کے ڈھیر سارے ہمدرد پیدا ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا صرف کتاب کے شائع ہونے کی بات نہیں تھی بلکہ مستقبل کے خدشات کو مد نظر رکھتے ہوئے پھونک پھونک کر قدم اُٹھانے اور قدم سنبھالنے اور رکھنے کے بعد مرحلے درپیش تھے۔ کالموں کی کمپوزنگ میں، انتخاب میں، پروف ریڈنگ میں، تربیت دینے میں، پرنٹنگ میں، صفائی میں جو مختلف مشکل مراحل سے ہم پر گزر چکے ہیں…… وہ اگر تفصیل سے لکھ دیا جائے، تو کالم کا دامن تنگ ہوجائے گا۔ پھر بھی انسان غلطی کا پتلا ہے۔ اگر کوئی کمی رہ گئی ہو…… یا کوئی ادبی یا تحریری غلطی ہوگئی ہو، تو وہ قصداً، ارادتاً نہیں بلکہ انجانے پن اور غیر ارادتی طور پر ہوئی ہوگی۔ اس کے لیے معذرت! منفی نہیں بلکہ مثبت سوچ کے ساتھ ہماری کاوش، محنت اور خلوص کو مد نظر رکھیں اور انہیں سراہیں ۔
یہ سب میرا کمال نہیں، میری محنت نہیں…… بلکہ اس میں ڈھیر سارے یاروں اور دوستوں کی محنت اور کاوشیں شامل ہیں۔ سب سے پہلے پروفیسر عطاء الرحمان عطاؔ صاحب کا نہایت شکر گزار ہوں۔ باوجود اُس کی بے پناہ مصروفیات کے اُس نے ہر وقت میرا ساتھ دیا۔ میرا حوصلہ بڑھایا۔ مجھے اپنے قیمتی مشوروں سے نوازا۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر وہ ساتھ نہ دیتے تو یہ کتاب آپ کے ہاتھوں تک پہنچنا مشکل تھی۔ نیز اُس نے کتاب کی مالی معاونت میں 5000 ہزار روپے دے کر اپنی خلوص اور محبت کا عملی اظہار کیا۔ اُس کی اس مالی قربانی نے مجھے بھی متحرک کیا۔ مَیں نے بھی اپنی جیب سے 5 ہزا ر روپے نکال کر رقم کو دس ہزار بنا دیا۔ اتفاقاً اس موقع پر سابق زرعی ڈائریکٹر اور مختلف کتابوں کے مصنف جناب عثمان صاحب بھی موجود تھے، انہوں نے یک دم اپنے بٹوے سے 1000 روپے نکال کر بھرپور خلوص کا مظاہرہ کیا۔ ہمارا حوصلہ بڑھا اور پبلشر سمیع اللہ گران کو فوراً کام شروع کرنے کی ہدایت کی۔ ہاں، مَیں گران پبلیکیشن کے نوجوان مالک اور روحِ رواں سمیع اللہ گران کا بے حد مشکور و ممنون ہوں کہ انہوں تصدیق اقبال بابو سے اپنی بھائی بندی اور دوستی کو نباہتے ہوئے کتاب کے اخراجات میں 40 فیصدکا بیڑا اٹھانے کا وعدہ کیا بلکہ اب تو وہ آدھے یعنی 50 فیصد اخراجات اپنی طرف سے کرچکے ہیں۔ جسمانی محنت، دوڑ دھوپ کے لیے ہم اُس کے الگ شکر گزار ہیں۔ کاغذ، کتابت اور بائنڈنگ میں اچانک مہنگائی کی وجہ سے موجودہ کتاب پر اخراجات ایک لاکھ پچاس ہزار تک پہنچ گئے۔ اس میں اب بھی کچھ بقایا جات رہتے ہیں۔ کمپوزنگ کے پیسے ہم نے نہیں دیے ہیں۔ ہمارا خیال تھا کہ کمپوزنگ کا بوجھ ہم پر نہیں آئے گا۔ بابو کے مسودے میں جن کالموں پر تاریخ لکھی گئی تھی، روزنامہ آزادی کے ایڈیٹوریل کے انچارج امجد علی سحابؔ کو اُن تاریخوں پر کالم نہیں مل رہے تھے۔ بہرحال بابو کے مسودے میں بہ مشکل 45 عدد کالم ہی ہاتھ آئے جو لقمان کو دے دیے گئے، باقی تقریباً 75 عدد کالموں کو ہمیں مجبوراً کمپوز کرنا پڑا۔ اس کے لیے میں لقمان کی محنت اور جان توڑ کوششوں کو سلام کرتا ہوں۔ اُس کی محنت اور پھر بابوصاحب کی کتاب کو اہمیت دینا اور باقی تمام کاموں پر اولیت دینا…… یہ اُن کا سب سے بڑا کارنامہ ہے جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔
ہم نے آغاز میں 400 تا 450 صفحوں کی ضخامت کا اندازہ لگایا تھا لیکن بعد میں سب تحاریر کو شامل کرکے کتاب کی ضخامت 533 صفحات تک پہنچ گئی۔ ہم نے بھی ضخامت کم کرنے یا کسی کے حوالہ سے لکھے جانے والے کالم کو نکالنے کی تجویز سے اتفاق نہیں کیا۔ اس کی بجائے اخراجات اٹھانے کے لیے خود کو تیار کرلیا۔ لہٰذا سمیع اللہ گران پر اپنا مالی بوجھ مزید بڑھنے کے علاوہ ہمارے مالی بوجھ میں بھی اضافہ ہوا اور معاملہ 60 سے بڑھ کر 75 ہزار تک پہنچ گیا۔ اس سے پہلے میرے، عطاؔ صاحب اور عثمان کی رقم کل ملا کر 11 ہزار ہی تھی۔ سوات کے چند مالی طور پر مضبوط دوستوں سے رابطہ کیا گیا، لیکن وہ انجان بن گئے۔ ہم نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ ہم ہر کسی سے یا ایرے غیرے سے مالی امداد کی درخواست نہیں کریں گے۔ ہم چندہ مانگیں گے، نہ خیرات کے لیے جھولی پھیلائیں گے۔ یہ ادب، قلم اور علم کی توہین ہوگی۔ یوں بابو (مرحوم) کی روح کو تکلیف پہنچے گی۔ لہٰذا ہم گنتی کے چند لوگوں سے رابطہ کریں گے…… لیکن افسوس ہماری امیدوں پر پانی پھر گیا۔ ہماری توقعات غلط ثابت ہوئیں۔ پھر بھی ہم نے مجبوراً اپنا رُخ پھیر دیا، لائن بدل دیا…… لیکن خیرات پھر بھی نہیں مانگی۔ افسوس اس دوران میں اکثر ایسا محسوس ہوا جیسے تصدیق اقبال بابو کے دفن ہونے کے ساتھ وفا، دوستی، اقدار اور اخلاقی معیار سب کچھ دفن ہوگیا ہو۔ بہر حال ہمیں مجبوراً سمندر پار سے رابطہ کرنا پڑا۔ عطا صاحب کی کوششوں سے ایک دن دوپہر کو اچانک ملالہ یوسف زئی کے والد محترم ضیاء الدین یوسف زئی نے مجھ سے رابطہ کیا اور پوچھا: ’’مجھے بتاؤ! کتنے پیسوں کی ضرورت ہے؟‘‘ مَیں نے پچاس ہزار روپے کا مطالبہ کردیا۔ اگلے لمحے یو بی ایل بنک کا کوڈ نمبر آگیا۔ اگلے ہی دن مَیں نے 50 ہزار روپے وصول کرلیے۔ اس طرح ہمارے ساتھ کل 61 ہزار روپے جمع ہوگئے، جو پرانے ٹارگٹ 6 0ہزار سے ایک ہزار اوپر ہوگئے…… لیکن کتاب کی ضخامت اندازے سے زیادہ ہوگئی اور اس پر طرہ یہ کہ مہنگائی کا جن بوتل سے نکل آیا۔ اس لیے اب نیا ٹارگٹ 75 ہزار تک پہنچ گیا۔ لہٰذا ہمارے لیے 14 ہزار روپے مزید تلاش کرنا تھے۔
اس حوالہ سے مَیں نے اپنے دوست، شعر اور نثر کے بے تاج بادشاہ احسان یوسف زئی سے درخواست کی کہ وہ فتح پور کے اُردو شاعر اور مخلص دوست ہارون الرشید عرف خان سڑے سے رابطہ کریں۔ اُسے مَیں نے فون کیا تھا۔ احسان یوسف زئی صاحب کا ممنون ہوں کہ وہ اپنی گونا گوں مصروفیات کے باوجود اپنا قیمتی وقت نکال کر ہارون الرشید صاحب سے مبلغ 5000 روپے لے آئے۔ مَیں ہارون صاحب کا شکر گزار ہوں۔ اس طرح مٹہ سمبٹ کے حسین علی صاحب نے بھی 5000 روپے کی ذمہ داری اٹھالی۔ اب آخر میں تمام حساب کتاب کچھ یوں بنتا ہے۔ عطا الرحمان عطاؔ صاحب پانچ ہزار، روح الامین نایابؔ پانچ ہزار، عثمان صاحب ایک ہزار، ضیاء الدین یوسف زئی پچاس ہزار، ہارون الرشید صاحب پانچ ہزار اور کل وصول شدہ رقم 66ہزار روپیہ کی شکل میں سمیع اللہ گران کو ادا ہوچکی ہے۔
اب 75 میں سے 9 ہزار روپے باقی رہتے ہیں۔ اس میں حسین علی صاحب کے پانچ ہزار نکال لیں، تو چار ہزار روپے بقایا رہ جاتے ہیں۔ وہ بھی مَیں ہی ادا کردوں گا…… یا پھر مجھے کہیں اور سے بندوبست کرنا پڑے گا۔
اس موقع پر ڈھیر سارے دوستوں کا یہ گلہ اور شکوہ بجا ہے کہ ہم سے کیوں رابطہ نہ کیا گیا؟ ہم سے کیوں صلاح مشورہ نہ کیا گیا؟ مَیں یہ مانتا ہوں کہ بعض دوست رابطہ کرنے پر ضرور کچھ مالی امداد کردیتے…… لیکن ہماری مجبوری یہ تھی کہ ہم پانچ سو، دو سو، ہزار روپے کا چندہ یا خیرات نہیں جمع کرنا چاہتے تھے، جس سے بات پھیل کر کچھ اور صورتِ حال اختیار کرجاتی، نہ اتنے زیادہ ساتھیوں کو شامل کرکے کوئی دو ٹوک فیصلہ کرنا ممکن ہوتا، نہ اتنا وقت ہی تھا کہ سوات کی گلیوں کوچوں میں پھر کر ہم خیرات جمع کرنے میں وقت ضائع کرتے۔ ہم تو صرف چند دوستوں کو اعتماد میں لے کر اور اُن کی مالی معاونت حاصل کرکے صرف اُن کے ممنون ہونا چاہتے تھے…… جو ہمیں تقریباً پانچ ہزار سے اوپر رقم دینے کی پوزیشن میں ہوں۔ لہٰذا اب صرف کل چھے لوگوں سے رابطہ کرکے مطلوبہ رقم جمع کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مَیں اُن کا شکر گزار ہوں، اُن کا تمام احسان مجھ پر اور پھر عطاؔ صاحب پر ہے۔
مَیں نے انہیں درخواست کی تھی، مگر وہ لوگ اپنے ناموں کی تشہیر کے حق میں نہیں تھے۔ مَیں مجبوراً معذرت کے ساتھ یہ سب کچھ آج اس کالم میں مشتہر کررہا ہوں…… تاکہ کسی قسم کی غلط فہمی اور شکوک و شبہات کی گنجائش نہ رہے۔ اگر ان چھے حضرات (جن میں، مَیں خود بھی شامل ہوں) کے علاوہ مجھ سمیت اگر کسی کو بابو صاحب کی کتاب کے حوالے سے کسی نے پیسے دیے ہیں…… تو وہ ببانگِ دہل صاف صاف اعلان کرسکتا ہے۔ البتہ جن دوستوں کو مالی امداد میں شرکت نہ کرنے پر افسوس ہے اور وہ ندامت محسوس کررہے ہیں، تو وہ کتاب کو مقررہ قیمت پر یا اُس سے زیادہ ادا کرکے خرید لے اور بابو صاحب کے بچوں کے ساتھ ہمدردی اور مالی امداد کرلے۔ کیوں کہ کتاب کی تمام آمدنی بابو مرحوم کے بچوں کو جائے گی۔
قارئین، علاوہ ازیں وہ تمام دوست جنہیں شکوہ ہے، وہ سمیع اللہ گران سے رابطہ کرکے اور مالی تعاون کرکے شان دار طریقے سے کتاب کی تقریبِ رونمائی کا اہتمام کرسکتے ہیں۔ اس طرح تقریبِ رونمائی میں بھی کتابوں کی ایک اچھی خاصی تعداد فروخت کی جاسکتی ہے۔
اب یہاں پر میری اور عطا صاحب کی ذمہ داری ختم ہوجاتی ہے۔ آگے کے پروگراموں میں ہم مشورہ دے سکتے ہیں، خدمت کرسکتے ہیں، پروگرام میں شمولیت کرسکتے ہیں لیکن مزید کسی قسم کی ذمہ داریوں سے ہم دونوں مبرا ہوں گے۔
کتاب کو شائع کرنا قطعاً کسی پر احسان نہ سمجھا جائے۔ بحیثیتِ دوست یہ ہمارا فرض تھا۔ آج ہم اُس فرض کے ادا کرنے میں سرخرو ہوگئے۔ یہ اللہ تعالا کا لاکھ لاکھ شکر ہے۔ ہمارے دل کو سکون ملا۔ یہ اطمینان اور سکون ہمارا سب سے بڑا سرمایہ ہے، اثاثہ ہے جسے ہم مدتوں سینے سے لگائے رکھیں گے۔
کتاب پر دیباچہ لکھنا بہت مشکل مرحلہ تھا۔ مسئلہ یہ تھا کہ بابو صاحب جیسے انسان پر جو اچانک ایک سانحہ کا شکار ہوچکا ہو، اُس کے سنگ چھے سالہ دوستی کی کہانی اور اب شہادت کے بعد اُس کی پوری زندگی کی داستان، کہاں سے شروع کی جائے…… کن الفاظ سے شروع کی جائے؟ میرے لیے الفاظ کا انتخاب مشکل تھا۔
مسئلہ یہ بھی تھا کہ اُس کی زندگی کا احاطہ کرنا اس حوالے سے مشکل ترین مرحلہ تھا کہ مجھے صرف اُن یادداشتوں پر بھروسا کرنا پڑ رہا تھا…… جو حسین لمحات مَیں نے اس کے ساتھ گزارے تھے، اس کی باتوں اور گپ شپ سے جو یادیں میرے دل و دماغ میں بھٹک رہی تھیں، آج اُنہیں سمیٹنے اور اکٹھا کرنے کا وقت آچکا تھا۔
مَیں مرحوم شمس الاقبال شمسؔ کا ممنون ہوں کہ انہوں نے اس بارے میں کافی تعاون کیا۔ مَیں بابو (مرحوم) کے بڑھے بھائی طارق اقبال کا بھی اس حوالے سے ممنون ہوں کہ انہوں نے بھی بعض معلومات سے دیں۔ بابو کے چچا زاد اور اُس کے دوست فاروق خان کا خاص طور پر شکر گزار ہوں کہ وہ ہر وقت ہر قسم کے تعاون کے لیے آمادہ ہوتے تھے۔
مَیں خاصا عرصہ اس دیباچہ لکھنے سے احتراز کررہا تھا۔ مجھے کوئی سرا نہیں مل رہا تھا۔ اوپر سے پبلشر کا تقاضا روز بہ روز شدت اختیار کر رہا تھا کہ جلدی شروع کریں، ورنہ کتاب میں تاخیر ہوجائے گی۔ آخر ایک دن صبح سویرے فجر پڑھنے کے بعد باوضو کالے قلم کی سیاہی سے سفید کاغذ پر الفاظ بکھیرنے کے آغاز کیا۔ پھر ہر صبح نمازِ فجر کے بعد الفاظ نازل ہوتے رہے۔ ایک وقت ایسا آیا کہ انہیں سمیٹنا مشکل ہوگیا۔
کمی کوتاہی رہی ہوگی۔ مَیں انسان ہوں۔ دیباچہ میں بابو صاحب کے ساتھ ساتھ سبحانی جوہر کا حقِ دوستی بھی ادا کرنا مقصود تھا۔
مَیں آخر میں سب یار دوستوں سے معذرت کرتا ہوں۔ بابو صاحب کے بھائیوں اور اہلِ خانہ سے بھی معذرت خواہ ہوں۔ اگر مجھ سے دیباچہ لکھنے میں کوئی غلطی ہوئی ہو…… یا اگر کتاب کے حوالے سے کوئی کمی رہ گئی ہو۔ مَیں نے دوستی کا حق ادا کرنے کی کوشش کی ہے، جو بھی کیا ہے…… خلوص و محبت سے کیا ہے۔
بابو صاحب کی ناگہانی موت کو مدِ نظر رکھ کر تمام یار دوست دلوں سے نفرتوں اور کدورتوں کو نکال کر پھینک دیں۔ اس کی بجائے محبتوں اور خلوص سے اپنے دلوں کو منور کردیں۔ اس دنیا کی چند ساعتیں اور لمحات محبتوں کے لیے کم ہیں۔ نہایت کم ہیں۔ ایسے میں نفرتوں کو پالنا پاگل پن ہی ہے۔
بابو صاحب اور سبحانی جوہر کی جدائی کے بعد میرے لیے خوشی، غم اور درد ایک جیسے ہوگئے ہیں۔ ان احساسات سے آگے نکل گیا ہوں۔ مَیں باقی کی زندگی ان دونوں کی یادوں کے سہارے گزارنا چاہتا ہوں۔ کیوں کہ آخر انجام تو یہی لحد ہی ہے۔
یہ زندگی کے میلے دنیا میں کم نہ ہوں گے
افسوس ہم نہ ہوں گے
اور پھر آخرِکار آج کی طرح کوئی کل ایسا بھی آئے گا کہ میرے بعد میرے چند احباب اور دوست میری یاد میں یہی کچھ کہیں گے جس طرح آج ہم بابو اور سبحانی کی یاد میں کہہ رہے ہیں:
تو جو نہیں ہے، توکچھ بھی نہیں ہے
یہ مانا کہ محفل جواں ہے حسین ہے
قارئین! ’’میرے کالم‘‘ مختلف کتابوں پر تبصروں کا ایک خوب صورت گل دستہ ہے جس کی خوشبو ہر سو پھیلی ہے۔ آپ اس کتاب کو گران پبلیکیشن ملک سپر مارکیٹ نشاط چوک مینگورہ سوات سے قیمتاً وصول کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ عمر خان بک سٹور، ابوبکر بک سٹور (اُدھیانہ مارکیٹ) سے بھی حاصل کرسکتے ہیں۔
قارئین، بس اتنی سی درخواست ہے کہ کتاب کو جہاں سے اور جس سے بھی حاصل کریں۔ قیمت ضرور ادا کریں۔ کیوں کہ یہ پیسے آپ کی طرف سے بابو صاحب کے یتیم بچوں کو ملیں گے، اور مالی سہارا بنیں گے۔ ــ’’اللہ! ہم سب کا حامی و ناصر ہو!‘‘
والسلام!
………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔