’’رات‘‘ (2010ء) ’’گھوڑا بھاگتا ہے‘‘ ٹائپ ناولٹ ہے یعنی حرکت تو بہت دکھائی دے رہی ہے مگر حاصل حصول کچھ بھی نہیں۔ کہانی اور کہانی کے تجسس سے محروم۔ فرسٹ ایئر کی کلاس کا پہلا دن اور لیکچرر کا بھی تدریسی میدا ن میں پہلا دن۔ ایسے دن جو کامیابیاں سمیٹی جا سکتی ہیں، اُسی کا حامل یہ ناولٹ بھی ہے۔ یہ ناولٹ کس کو خوش کرنے کے لیے لکھا گیا ہے، اس کاہمیں 100 سال سے پہلے پتا نہیں چلے گا۔ ناولٹ کا نام ’’رات‘‘ ہے، اس لیے سارے معاملات تاریکی ہی میں ملفوف ہیں۔ اس ناولٹ کا ہیرو شوکت (شوکی) ہے جو بیوی کی کمائی پر پل رہا ہے۔ بیوی ہی اُسے جگہ جگہ لیے پھرتی ہے۔ وہ دو منزلہ بس میں سواری کر رہے ہیں اور اوپری منزل میں۔
’’بس ایک دھچکے سے سٹاپ پر رُک گئی۔ انھوں نے اپنے پاؤں کے قریب لگی طاقچی میں سے دیکھا کہ ڈرائیور نے ابنِ صفی کا ناول پلٹ کر وہاں سے پڑھنا شروع کر دیا جہاں پچھلے سٹاپ پر اُس نے چھوڑا تھا۔ چند لوگ اوپر آئے اور اِدھر اُدھر بیٹھ گئے۔ ڈرائیور نے ناول اُٹھا کر سٹیئرنگ کے پاس رکھا اور بس پھر روانہ ہوئی۔‘‘
شوکی صحافت سے وابستہ ہے اور اُس کی واجبی سی ہوائی آمدنی ہے۔ پاکستان میں قلم فروشی کے بغیر کسی رائٹر زکو کیا ملتا ہے؟ یہ ناولٹ اُسی طرف اشارہ کرتا ہے۔ پیسے کے بغیر انسان کی نہ گھر میں کوئی عزت ہے، نہ باہر۔ یہ ناولٹ بھی ایک مایوس کن صورتِ حال کی کہانی ہے۔
’’پھر مخدوش آنکھوں سے وہ دروازے میں نمودار ہوئی اور ہولے ہولے چلتی ہوئی آکر میز کے ایک کونے پر بیٹھ گئی اور اُسے دیکھنے لگی اور اُسے اُس کا سال پہلے تک کا سنگِ مرمر کی چمک والا تیر کی طرح سیدھا دُبلا پتلا، پھڑکتے ہوئے، اُچھلتے اور کودتے ہوئے پٹھوں والا اور پوری طرح احاطہ کرتی ہوئی گردش والا اور نوعمر لڑکوں کی سی گریس والا محبوب او رمہربان بدن یاد آیا جو اب تند خو اور زہریلا ہو چکا تھا اور کوئی رابطہ کسی سے نہ رکھتا تھا۔ پھر اُس نے بھی آنکھیں اُٹھا کر اُس کی طرف دیکھا اور دیکھتا رہا۔‘‘
شوکی خیالوں ہی خیالوں میں اپنا ماضی یاد کرتا ہے۔ اپنا بچپن یاد کرتا ہے۔ کیوں کہ اُسے اپنا مستقبل رات کی طرح تاریک نظر آرہا ہے۔ ہر ماضی پرست کا یہی المیہ ہوتا ہے۔ ماضی کو یاد کرنے کی بڑی وجہ ہی یہی ہوتی ہے کہ مستقبل کے امکانات نظر نہیں آتے۔ اسے انسان کبھی حکومت پر ڈال دیتا ہے، کبھی خاندان پر اور کبھی معاشرے پر جب کہ اصل بات جو ہمیں فلسفہ بتاتا ہے، وہ یہ ہے کہ کوئی بھی کام بغیر وجہ یا منطق کے نہیں ہوتا۔ نہ معاملات ایک دن میں خراب ہوتے ہیں نہ ایک دن میں درست ہی ہو سکتے ہیں۔ ان کی جڑیں ہمیں ماضی ہی میں کہیں تلاش کرنی پڑتی ہیں۔
اس ناولٹ کی ہیروئن کا نام جمال افروز انصاری ہے جس کا نک نیم جال زیادہ مشہور ہے۔ ناولٹ کا تیسرا کریکٹر ریاض ہے جو شوکی اور جال کا یونیورسٹی میں کلاس فیلو اور حریف بھی رہ چکا ہے۔ ریاض کو شوکت نے یونیورسٹی کے الیکشن میں شکست دی تھی، مگر اب معاشی حالات سے شکست کھا کر گھر میں نڈھال پڑا تھا اور ہارنے والا ریاض ایک اچھے آفس اور بہترین معاشی سیٹ اَپ کا مالک تھا۔ نہ کوئی فتح مستقل رہتی ہے نہ کوئی شکست۔ یہ زندگی یوں ہی زیر و زبر ہوتی رہتی ہے۔
’’جس روز وہ منتخب ہوا اُس کے ساتھیوں نے اُسے کندھوں پر چڑھا کر ریاض کے کیمپ کے سامنے بھنگڑا ڈالا اور سٹاف کی نظروں کے سامنے پتلونیں نکال دیں او راگر چند پروفیسر بیچ بچاؤ نہ کرتے، تو شاید بلوہ ہو جاتا۔ اسی روز ریاض یونیورسٹی سے غائب ہوگیا۔‘‘
ریاض مثبت سوچ رکھنے والا آدمی ہے۔ وہ یونیورسٹی کے صدارتی الیکشن میں ہونے والی شکست کو بھول کر جو اُسے ٹھیک ٹھاک پیسا خرچنے کے باوجود ہوئی تھی بُھلا کر اپنی زندگی کو بہتر سے بہتر بنا لیتا ہے، مگر صدارتی الیکشن جیتنے والا اور یونیورسٹی سے گولڈ میڈل لینے والا کچھ جوش دکھا کر جلد ہی ٹھس ہو جاتا ہے۔ ریاض نے اپنے گھر میں شوکت کے ساتھ اپنی یونیورسٹی کے دنوں والی تصویر نمایاں کر کے لگا رکھی ہے۔ ریاض اُسے اپنی امارت دکھانے کے لیے جب اپنے گھر لے کر جاتا ہے، تو وہ یہ سب کچھ دیکھتی ہے مگر وہ اس سے متاثر نہیں ہوتی۔
’’پھر ڈائننگ ہال میں بیٹھے ہوئے سب مرد عورت اُٹھ اُٹھ کر دروازوں اور کھڑکیوں پر جمع ہونے لگے۔ خوف زدہ ہاتھوں سے دیواروں اور کھڑکیوں کو تھام کر انہوں نے اُسے گھٹنوں گھٹنوں، کمر کمر پانی میں اُترتے ہوئے دیکھا اور دیر تک دم سادھے رہے۔
’’یا میرے اللہ!‘‘ پھر کسی نے دہشت زدہ آواز میں کہا۔ ہال میں کہیں ایک پلیٹ کے گر کر ٹوٹنے کی آواز بلند ہوئی۔ سہ پہر کا سناٹا شدید ہوگیا۔ دم بخود ہجوم میں دو عورتیں چپکے چپکے سسکیاں لے کر رونے لگیں۔‘‘
یہ اختتام ہے اس ناولٹ ’’رات‘‘ کا جو اپنے آغاز سے انجام تک مبہم سا ہے۔ اس ناولٹ کا اسلوب بہت پیچیدہ ہے۔ کہیں علامتی لگتا ہے اور کہیں شعور کی رو کی تکنیک در آتی ہے اور کہیں سادہ بیانیہ شروع ہو جاتا ہے۔ عنوان اور موضوع سے بھی ناولٹ کی جُڑت پوری طرح ثابت اور ظاہر نہیں ہوتی۔
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔