انتظار حسین کا ناولٹ ’’اللہ کے نام پر‘‘ (1963ء) بھکاریوں کے مسائل اور ان کی زندگی کو موثر انداز میں پیش کرتا ہے۔ اس ناولٹ کے تین کردار زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ ایک نابینا اور ضعیف ’’جگو‘‘ دوسری اس کی نوجوان لڑکی ’’گجریا‘‘ اور تیسرا ایک نوجوان لنگڑا بھکاری ’’شالی‘‘
جگو اوراس کی بیٹی تو خاندانی فقیر ہیں، لیکن شالی سے متعلق جگو اور گجریا کا خیال ہے کہ وہ ضرور کسی اچھے خاندان سے تعلق رکھتا ہے اور حالات و حواد ث نے اُسے موجود زندگی سے دوچار کیا ہے۔ ان تینوں کے علاوہ بھکاریوں کے اس ’’سائبان‘‘ میں اور دوسرے بہت سے فقیر ہیں۔ یہاں سے گزرنے والے مسافر نوجوان آوارہ مزاج لڑکے گجریا کی جوانی پر مرتے ہیں اور گویا یہاں کے فقیروں اور خود جگو اور شالی کو بھیک بھی گجریا کی خوب صورتی اور حسن و شباب کے طفیل ہی ملتی ہے۔
’’سائبان‘‘ کا مالک ٹھیکیدار بھی ہے جو سب فقیروں پر ظلم و زیادتی کر کے ہر دن اُن سے اپنا حصہ لیتا ہے۔ ’ ’گجریا‘‘ شالی کو چاہنے لگتی ہے اور چاہتی ہے کہ اس کے ساتھ رِہ کر کہیں محنت مزدوری کریں، لیکن شالی اپنی فطرت اور مزاج کے لحاظ سے بہت عجیب و غریب اور پُر اسرار واقع ہوا ہے۔ وہ خیال کرتا ہے کہ وہ خود بھی ایک فقیر ہے۔ اس لیے کیوں نہ گجریا کو کسی مال دار شخص کے حوالے کیا جائے، جہاں وہ آرام اور چین سے رہ سکے۔ وہ گجریا کے باپ جگو سے ہر وقت دنیا، کائنات اور انسانی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر اظہار ِخیال کرتا ہے۔ جس سے اس کی دانشمندی اور فہم و فراست کا بھی احساس ہوتا ہے:
’’اب تو مَیں کچھ بھی نہیں رکھتا جگو بابا! یہاں تک کہ اپنا وجود بھی نہ ہونے کے برابر سمجھتا ہوں۔ یا د پڑتا ہے کہ کبھی مَیں بھی تمہاری طرح صاحبِ اولاد تھا۔ زندگی کے تھوڑے بہت تکلفات بھی ساتھ تھے، مگر ساری عمر گنوانے کے بعد یہ پتا چلا کہ زندگی کی اصل مشکل یہی ہے جو دنیا نے ہم دونوں کو بنا دی۔ مجھے اپنی وہ زندگی کہیں سے یاد ہے۔ ساری داستان تو مَیں باوجود کوشش کے بھی نہ یاد رکھ سکا۔ اگر کبھی بتلا سکا، تو اپنے گزرے ہوئے دن کی کہانی تمہیں سناؤں گا۔‘‘
شالی گجریا سے کہتا ہے کہ وہ ٹھیکیدار سے راہ و رسم بڑھائے اور اس سے شادی کرے۔ ٹھیکیدار بوڑھا تھا۔ گجریا اس کے ساتھ جانے کے لیے تیار نہیں ہوتی اور خود ٹھیکیدار بھی کوئی خاص دلچسپی ظاہر نہیں کرتا۔ اگرچہ گجریا کا باپ جگو اس رشتے سے خوشی کا اظہار کرتا ہے۔
پھر ایک دن شالی گجریا کو سمجھا کر اُسے ایک نوجوان کے حوالے کرتا ہے۔ نوجوان اُسے 20 روپیا دیتا ہے اور گجریا کو اپنی کار میں بٹھا کر ایک ہوٹل لے جاتا ہے۔ اُسے قیمتی کپڑے دلاتا ہے اور اُسے اپنے ساتھ رکھتا ہے۔ صبح اُٹھ کر جگو، گجریا کو تلاش کرتا ہے۔ شالی سے اس کے بارے میں پوچھتا ہے۔ بالآخر شالی اُسے حقیقت حال سے آگاہ کرتا ہے اور اسے 20 روپیا دیتے ہوئے کہتا ہے:
’’یہ تمہاری لڑکی کی پہلی کمائی ہے۔ انہیں کسی ضرورت کے لیے اُٹھا رکھو۔ گجریا اگر لوٹ کر آگئی، تو تمہیں اپنے ساتھ لے جائے گی، نہ آئی تو ان روپوں سے مرتے وقت اپنا کفن خرید لینا اور تو اب اس دنیا میں تمہیں کچھ کرنا باقی نہیں رہا۔‘‘
اُدھر گجریا نوجوان کے ساتھ بہت خوش و خرم رہتی ہے، لیکن کچھ عرصے بعد ہی نوجوان اُس سے اُکتا جاتا ہے۔ وہ پھر اپنے باپ کے پاس ’’سائبان‘‘ واپس آجاتی ہے، گجریا کے صدمے سے وہ اور بھی کمزور ہوگیا تھا۔
یہاں پر یہ ناولٹ ختم ہو جاتا ہے، جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے بھوکے مفلس اور مفلوک الحال گداگروں کی زندگی کی عکاسی کرنے والے اس ناولٹ میں تین کردار نمایاں طور پر سامنے آتے ہیں۔ جگو بھکاری ہونے کے باوجود بھی اپنی غیرت و حمیت کی پاس داری کرتا ہے۔ اپنی بیٹی کے بھاگ جانے کے بعد دوبارہ لوٹنے پر اسے قبول نہیں کرتا، جب کہ اس کی بیٹی گجریا شالی کے اصرار پر نوجوان کے ساتھ نکل جاتی ہے۔
گجریا کا بھاگ جانا کوئی تعجب خیز امر بھی نہیں، لیکن فلسفی مزاج شالی کا گجریا کو نوجوان کے ساتھ بھاگ جانے کے لیے اکسانا غیر فطری معلوم ہوتا ہے اور پھر جب کہ خود گجریا بھی اس کو چاہتی ہے۔ بہرکیف فقیروں کے اس ’’سائبان‘‘ تلے جو کچھ بھی واقع ہوتا ہے، ناولٹ نگار نے فنی کامیابی کے ساتھ تخلیقی گرفت میں لینے کی کوشش کی ہے۔
………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔