ناولٹ ’’کنول‘‘ (1959ء)کو لکھنے والے ایم ڈی تاثیر کا ذیل میں دیا جانے والا تعارف ’’اُردو افسانے کی روایت ‘‘ میں ہمیں ملتا ہے: ’’محمد دین تاثیر 28 فروری 1904ء کو امرتسر میں پیدا ہوئے۔ 1934ء میں Ph.D مقالہ لکھا۔ 1937ء میں ایم اے اُو کالج کے پرنسپل بنے۔ 1948ء میں اسلامیہ کالج کے پرنسپل مقرر ہوئے اور 30 نومبر 1950ء کو وفات ہوئی۔‘‘
ایم ڈی تاثیر کے افسانے، ڈرامے اور ناول کو شیما مجید نے 1977ء میں ’’شاہکار‘‘ کے زیرِ عنوان مرتب کیا۔ یہ تعارفی نوٹ مرتب شیما مجید نے لکھا ہے: ’’ڈاکٹر محمد دین تاثیر اُردو ادب کے بڑے نقاد کے علاوہ ممتاز افسانہ نگار اور ناول نگار ہیں۔ اُن کی بہت سی تحریریں ابھی تک غیر مطبوعہ ہیں۔ اُن کے مضامین، افسانے اور انشائیے مختلف رسائل و جرائد میں بکھرے پڑے تھے۔ اُن کے افسانوں کا مجموعہ جو آپ کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے، یہ مختلف رسائل میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ ان افسانوں میں اُن کی مخصوص ہیئت، افسانوی جکڑ بندیوں سے کم حقیقت پسند افسانوں کے تار و پود سے قدر رکھتا ہے۔ ڈاکٹر تاثیر کے افسانوں میں جڑیں روایت کی مٹی میں پیوست ہیں۔ اُردو افسانے کا جدید سرمایہ ایک نظر دیکھنے سے ہی معلوم ہوسکتا ہے۔ ڈاکٹر تاثیر کے افسانوں میں طرزِ احساس، تخلیقی عوامل کے گہرے اثرات ہیں۔‘‘
’’کنول‘‘ ناولٹ واحد متکلم کی صورت میں لکھا گیا ہے اور کشمیر کے ایک سفر سے اس کا آغاز ہوتا ہے۔
’’مجھے نعرے بازی ناپسند ہے۔ پہلا نعرہ تو مَیں نے ٹھنڈے دل سے گویا کمزوروں کی حمایت میں لگایا، لیکن اس نعرے کا جو اثر ہو اُس سے نہ جانے مجھے کیا ہوگیا۔ امیر اکدال کا چوک سری نگر کا آباد ترین علاقہ ہے۔ یہاں ہر وقت لوگوں کا ہجوم رہتا ہے۔ مَیں نے جو نعرہ لگایا، تو کیا دیکھتا ہوں کہ چوک سنسان سا ہو گیا ہے۔ لوگ اِدھر اُدھر دکانوں اور ہوٹلوں میں گھس رہے ہیں۔ اوپر کی منزلوں کی کھڑکیوں کے پردے اُٹھ گئے ہیں۔ پولیس والے ٹولی بنا کر سرگوشیاں کر رہے ہیں۔ بس خاموشی غیر معمولی خاموشی کا بوجھ میرا گلا گھونٹ رہا تھا۔‘‘
یہ پاکستان بن جانے کے بعد کا منظرنامہ ہے اور کہانی سنانے والا ایک پاکستانی کی حیثیت سے مقبوضہ کشمیر گیا ہے۔ وہ تقسیم سے پہلے اور بعد کا تقابل کرتا ہے۔ کرشن گوپال مصنف کا پرانا ہم جماعت تھا۔ وہ بمبئی میں سیٹھ ہری پرشاد کے ساتھ کاروبار کرتا تھا اور پُرتعیش زندگی گزارتا تھا۔ مصنف بھی اُس کی مہمان نوازی سے لطف اندوز ہوتا تھا۔ پاکستانی کی حیثیت سے جب وہ ہندوستان جاتا ہے، تو وہاں جا کر چاند نرائن بن کر رہتا ہے جب کہ وہ اصل میں ارشد حسن ہے۔
’’کرشن کی ہنسی، معذرت اور صاف گوئی نے میری برہمی دور کر دی۔ مَیں نے کہا : ’’بھئی، میری تمام جائیداد مشرقی پنجاب میں تھی، وہ جاتی رہی۔ نقدی ختم ہو رہی ہے۔ بیس پچیس ہزار کی رقم سے میرا کتابوں کا کاروبار چالو ہو جائے گا۔ مجھے یہ سودا پسند ہے۔ عورتوں کے معاملے میں خوش نصیب رہا ہوں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ مجھ پر عاشقی کا دورہ نہیں پڑتا۔ یہ جنون شعروں میں خارج ہو جاتا ہے۔‘‘
ہر فن اور محنت کی اس دنیا میں قدر ہوتی اور قیمت پڑتی ہے۔ اس ناولٹ کا ہیرو ارشد خواتین کو پھانسنے کا ماہر ہے، مگر اُس کی یہ ماہرانہ رائے بھی ہے کہ پھنستی وہی عورت ہے جو خود پھنسنا چاہتی ہے۔ مرد، عورت اپنی اپنی دانست میں یہی قیاس کرتے ہیں کہ وہ اپنی اپنی جگہ فنکاری اور استادی دکھا رہے ہیں۔ ارشد کو اُس کا دوست کرشن ایک سیٹھ کا کام کروانے کا ٹھیکہ لے دیتا ہے۔ کام یہ ہے کہ سیٹھ کی بیوی ایک ڈاکٹر کے ساتھ سیٹ ہے او رسیٹھ کو چھوڑ جانا چاہتی ہے۔ مگر سیٹھ، ڈاکٹر کے ہاتھوں ہارنا نہیں چاہتا۔ وہ چاہتا ہے کہ ارشد اُس کی بیوی پھنسا لے اور ڈاکٹر سے دور کر دے۔ وہ ارشد کو دس ہزار ایڈوانس، گھومنے پھرنے کے لیے نئی کار اور رہنے کے لیے اچھا خوبصورت فلیٹ لے دیتا ہے۔ ارشد، کنول رانی سے ملاقاتیں شروع کر دیتا ہے۔ بیچ میں کرشن، زمرد نامی ایک پارسی لڑکی کو ارشد سے متعارف کروا دیتا ہے۔
سیٹھ کا دماغ اور پیسا اپنی جگہ کام کر رہا ہے۔ ارشد، کنول کے ساتھ جسمانی تعلقات بھی استوار کر لیتا ہے اور وہ ڈاکٹر پوری سے کسی قدر بدظن بھی ہو جاتی ہے۔ سیٹھ یہ گیم کھیلتا ہے کہ ڈاکٹر پوری کو بھڑکاتا ہے کہ چاند نرائن (ارشد) اُس کی محبوبہ اور میری بیوی کو قابو کرچکا ہے۔ اُسے کنول سمیت پکڑا جائے۔ ڈاکٹر پوری، سیٹھ کی باتوں میں آجاتا ہے۔ سیٹھ، ڈاکٹر پوری اور پولیس مل کر چاند کے فلیٹ پر چھاپا مارتے ہیں۔ کنول اور چاند شب خوابی کے لباس میں ہیں۔ سیٹھ کا یہ پینترا سب کے لیے حیران کن ہے۔ کنول او رارشد ذلیل ہو کر جُدا ہو جاتے ہیں، مگر یہ کہانی ایک او رموڑ لیتی ہے جو اس ناولٹ کا اختتام بھی ہے۔
’’مَیں نے اُٹھ کر کنول کا ماتھا چوم لیا۔ اُس کی آنکھوں کو بوسے دیے۔ اُس کے ہونٹوں پرہونٹ رکھ دیے اور پھر دونوں لرزتے ہوئے جسموں کو سنبھالنے کے لیے صوفے پربیٹھ گئے۔ باہر پوری کے کھانسنے کی آواز آئی تو کنول نے کہا: ’’آئیے!‘‘ پوری ساتھ کی کرسی پر آ بیٹھا۔ ہم تینوں خاموش تھے۔ یکایک پوری نے کہا : ’’مَیں تم دونوں کو مبارک دیتا ہوں کہ تم نے اپنے آپ کو پالیا۔ چاند نرائن جی آپ کو چاہیے کہ ……!‘‘پوری کا فقرہ منھ ہی میں رہ گیا۔ پٹاخ سے دروازہ کھلا اور سیٹھ ہنستا ہوا، شیطان کی طرح ہنستا ہوا کمرے میں داخل ہوگیا۔ میں اُٹھ کر کھڑا ہوگیا۔ سیٹھ نے ہنستے ہنستے کہا: ’’بڑی انوکھی منڈلی ہے یہ۔ پرانا عاشق اپنے کامیاب رقیب کو مبارکباد دے رہا ہے۔ معشوق دوہری کامرانی پر اِترا رہا ہے اور عشق بازی کا کرتبی پنڈت چاند نرائن ارشد پھولا نہیں سماتا کہ اُس نے سیٹھ کی بیوی او رسیٹھ کی ……!‘‘ مَیں شروع ہی سے سیٹھ کے ارادے کو بھانپ گیا تھا۔ وہ مجھے اور کنول کو جیتے جی ختم کرنے آیا تھا۔ اُس کے آتے ہی میرا ہاتھ بے اختیار میری اندر کی جیب میں گیا اورجب سیٹھ نے ابھی اپنی دولت کا ذکر نہیں کیا تھا، کرنے والا تھا، مَیں نے پستول نکالا اور سیٹھ پر فائر کیے۔ سیٹھ وہیں ڈھیر ہو گیا۔‘‘
اسلوبی سطح پر ڈاکٹر تاثیر نے اس ناولٹ میں ’’مشک فروشی‘‘ ، ’’بند وبستی‘‘، ’’دوست دارانہ‘‘ جیسے نئے اور نامانوس الفاظ استعمال کیے ہیں جو تاثیر کے صاحبِ اُسلوب ادیب ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ یہ وہ لفظیات ہے جو خاص انہی کی تحریر میں نظر آتی ہے۔ بے تکلفی اور جدت طرازی بھی اُن کی تحریر کا خاصا ہے جو آج بھی تروتازہ معلوم ہوتی ہے۔
تاثیر نے خود اپنی شخصیت کو بھی ٹکڑوں میں اس ناولٹ کے اندر کئی جگہ شامل کیا ہے، مگر ساتھ ہی ساتھ فکشن کے پورے تقاضے احسن طریقے سے نبھائے ہیں۔
اسے تاثیر کی نمائندہ تحریر کہاجا سکتا ہے، جو اُسلوب اور ندرت میں اپنی اہمیت منواتی ہے۔ البتہ نام انہوں نے سادہ سا رکھا ہے جو ناولٹ کی پوری کہانی کی طرف اشارہ نہیں کرتا۔
………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔