پاگل خانے کے باغ میں، مَیں نے ایک نوجوان کو دیکھا، جس کا خوب صورت چہرہ پیلا پڑ جا رہا تھا، جس پر تحیر کی سیاہی چڑھی ہوئی تھی…… مَیں اس کے پاس بینچ پر بیٹھا اور میں نے پوچھا…… ’’تم یہاں کیسے؟‘‘
اُس نے حیران ہو کر میری طرف دیکھا اور کہا: ’’یہاں آپ کا یہ سوال اگر چہ بے معنی ہے…… بہر حال میں جواب ضرور پیش کروں گا۔ میرے باپ کی یہ خواہش تھی کہ مَیں ہوبہو اس کا نمونہ بنوں، اور یہی تمنا میرے چچا کی تھی۔ میری ماں کی آرزو تھی کہ میں اپنے مرحوم نانا کے نقش قدم پر چلوں…… اور میری ہمشیرہ اپنی بے باک ملاح خاوند کو میرے لیے بہتر نمونہ سمجھتی تھی۔ میرا بھائی سوچتا کہ مجھے اور کچھ نہیں، بس اس کی طرح ایک نامی پہلوان بننا چاہیے……! اور یہی حال میرے اساتذہ کا تھا۔ فلسفے کے استاد، موسیقی اور منطق کے اب کی یہی خواہش تھی، اور وہ بڑی جانفشانی سے اس کوشش میں تھے کہ وہ مجھ میں اپنے جوہر اس طرح معکوس دیکھیں، جس طرح آئینہ میں اپنا عکس دیکھتے ہیں! اور میں یہاں اس لیے چلا آیا کہ یہاں مقابلتاً زیادہ سکون ہے اور مَیں کم از کم مَیں تو بن سکتا ہوں؟
پھر ایکا ایکی وہ میری طرف مڑتے ہوئے بولا…… لیکن آپ یہاں کیسے پہنچے……؟ اُونچی تعلیم یا اچھی صحبت کے فیض سے……؟
میں بوکھلا سا گیا۔ ’’نہیں نہیں، مَیں تو صرف ملاقاتی ہوں۔‘‘
وہ بولا: ’’تو مَیں سمجھا آپ ان میں سے ہیں…… جو اس دیوار کے اُدھر والے پاگل خانے میں رہتے ہیں۔
(انتخاب از ’’کلیاتِ خلیل جبران‘‘)