منشی صاحب، سعادت و اقبال نشاں، سیف الحق میاں داد خاں سیاح کو دعا۔
صاحب وہم اور چیز ہے اور احتیاط اور چیز ہے۔ کارپردازانِ ڈاک میرے خطوط کے ٹکٹ کبھی نہ دبائیں گے اور میرے خطوط کبھی نہ تلف ہوں گے۔ آدھ آنے کی جگہ دوست کا ایک آنہ کیوں کھوؤں؟
’’گلشن‘‘ بعض کے نزدیک مؤنث ہے اور بعض کے نزدیک مذکر ہے۔ ’’قلم‘‘، ’’دہی‘‘، ’’خلعت‘‘ ان کا یہی حال ہے۔ کوئی مؤنث کوئی مذکر بولتا ہے۔ میرے نزدیک ’’دہی‘‘ اور ’’خلعت‘‘ مذکر ہے اور ’’قلم‘‘ مشترک ہے۔ چاہوں مذکر کہوں، چاہومؤنث۔ ’’گلشن‘‘ البتہ مذکر مناسب ہے۔
’’رکھتہ ہے‘‘ بھائی! جہاں الف دبتا ہے، میرے کلیجے میں ایک تیر لگتا ہے۔ ’’رکھتا ہے گلشن بھی‘‘ یہ الف دبتا ہوا دیکھ کر میں نے ’’رکھتی ہے‘‘ بنا دیا۔ مگر ’’گلشن‘‘ مذکر مناسب ہے۔ ’’پھلکی‘‘ یا ’’پھلکا‘‘ تنہا بہ معنی محض ہے۔ ’’ہلکی پھلکی‘‘، ’’ہلکا پھلکا‘‘ یوں آئے تو درست، ورنہ لغو۔ اور یہ جو ’’پھلکا‘‘ پتلی چپاتی کو کہتے ہیں، یہ دوسرا لغت ہے۔ ’’پھلکے‘‘ کبھی کوئی نہ بولے گا۔ ’’پانی وانی‘‘، ’’حقہ وقہ‘‘ یوں کہیں گے۔ نرا ’’وانی‘‘ اور نرا ’’وقہ‘‘ نہ کہیں گے۔ ’’ہلکا پھلکا‘‘ کہیں گے سبک چیز کو۔ نرا ’’پھلکا‘‘ یا نری ’’پھلکی‘‘ نہ کہیں گے۔
تذکیر و تانیث کے باب میں مرزا رجب علی بیگ سے مشورہ کرلیا کرو اور دبتے ہوئے حروف بھی ان سے پوچھ لیا کرو۔
غالبؔ
(جنوری یا فروری 1861ء)
(’’انتخابِ خطوطِ غالبؔ‘‘ مرتبہ ڈاکٹر ایوب صابر، مطبوعہ ’’نیشنل بُک فاؤنڈیشن، اسلام آباد‘‘، صفحہ نمبر 120 سے انتخاب)