اے حمید کا ناولٹ ’’جہاں برف گرتی ہے‘‘ (1953ء) محبت کی ایک ناکام داستان کو پیش کرتا ہے۔ ناولٹ کا مرکزی کردار فیصل جو ایک انجینئر ہے، ایک سڑک کی تعمیر کے سلسلے میں چندن کوٹ نامی علاقے کے ریسٹ ہاؤس میں وارد ہوتا ہے۔ پہاڑیوں اور سبزہ زاروں سے گھرا ہوا یہ بہت ہی خوب صورت اور فرحت بخش علاقہ ہے۔ ایک دن سڑک کی تعمیر کے سلسلے میں رکاوٹ یہ پیدا ہوئی کہ ایک پرانی قبر سامنے آگئی۔ انجینئر یہ سمجھا کہ ہو سکتا ہے یہ کسی بزرگ کا مزار ہو اور اسے راستے سے منہدم کر کے سڑک تعمیر کرنے پر کسی جھگڑے کا امکان پیدا ہوسکتا ہے۔ اس لیے وہ علاقے کے لوگوں سے اس قبر کے بارے میں تحقیقات کرتا ہے۔ ایک بوڑھے چرواہے کے ذریعے اسے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک لڑکی کی قبر ہے۔ انجینئر کے استفسار پر بوڑھا گویا ہوتا ہے:
’’اب سمجھا…… آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں بابوجی! وہاں ایک مزار ہے۔ اگرچہ وہ کسی بزرگ کا نہیں بلکہ ایک لڑکی کا ہے۔ لیکن وہ کسی بزرگ سے کم نہ تھی۔ کم از کم میں اسے ایسا ہی سمجھتا ہوں۔‘‘
بوڑھا رُک گیا اور گردن جھکاتے ہوئے کسی گہری سوچ میں ڈوب گیا۔ انجینئر نے کان کھڑے کر لیے۔
’’لڑکی……!‘‘
’’ یہ بڑی پرانی کہانی ہے جناب! اسے کہنے کے لیے میرے پاس دل اور سننے کے لیے آپ کے پاس وقت نہیں ہے۔ ایک زمانہ تھا جب لاجی کے حسن کے چرچے رشی کنڈ کی چوٹیوں تک تھے اور اس کی جوانی کی مہک وادیوں اور چراگاہوں میں بسی ہوئی تھی۔ اب نہ و ہ زمانہ رہا اور نہ وہ لاجی ہی رہی، ہاں! اس کی قبر ضرور باقی ہے اور میری موت کے بعد شاید وہ بھی مٹ جائے……!‘‘
یہ لاجی اور کوئی نہیں بلکہ ناولٹ کی ہیروئن ہے جو بھیڑ بکیریاں چرایا کرتی تھی اور جب ناولٹ کا ہیرو انجینئر فیصل اپنی طالب علمی کے زمانے میں چھٹیاں گزارنے اس علاقے میں قیام پذیر تھا، تو لاجی سے اس کی ملاقات اور آشنائی ہوئی تھی اور دونوں نے ایک دوسرے کے ہو جانے کی باتیں کہی تھیں :
’’…… پردیسی میرا دل دھڑک رہا ہے۔ تم میرے پاس رہنا، مجھے بڑا ڈر لگتا ہے، پردیسی تم چلے تو نہیں جاؤ گے؟ ہائے، پھر یہ چشمہ سوکھ جائے گا اور ان درختوں پر کبھی شگوفے نہیں پھوٹیں گے۔ تم نے کیا کر دیا ہے پردیسی۔ میں مر جاؤں گی۔ میں مر جاؤں گی……!‘‘
اس چرواہن سے محبت او رچاہت کے باوجود فیصل اپنی محبوبہ کلثوم کو بھی بھول نہیں سکا، جو شہر میں رہتی ہے اور دونوں کے درمیان خط و کتابت برابر جاری رہتی ہے۔ لاجی سے یہ کہنے کے باوجود کہ وہ اسے عنقریب اپنے شہر لے جا کر اس سے بیاہ کرے گا۔ فیصل اپنے مستقبل کے بارے میں سوچتا ہے۔ اس کے گھر کے لوگ گاؤں کی اس گنوار لڑکی کو کیوں کر قبول کریں گے اور پھر کالج اور معاشرے میں فیصل کن نگاہوں سے دیکھا جائے گا؟ وہ تعلیم یافتہ کلثوم سے بھی اس کا موازنہ کرتا ہے اور پھر یہ بھی کہ کلثوم بھی تو اُسے بے حد چاہتی ہے۔ اس واقعے سے وہ کس حد تک مغموم ہو جائے گی۔ اس کا دل ٹوٹ جائے گا اور پھر وہ لاجی کو بتائے بنا ہی اپنے شہر چلا جاتا ہے۔
بعد از آں لاجی اس کی قیام گاہ پر پہنچتی ہے، تو چوکیدار کے ذریعے اُسے معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ جا چکا ہے۔ وہ قریب قریب اپنے حواس کھو بیٹھتی ہے۔ فیصل کے ساتھ گزارے ہوئے د ن اُسے یاد آنے لگتے ہیں اور پھر ایک دن برف باری کی طوفانی رات میں لاجی برف کے نیچے دب جاتی ہے۔
ادھر فیصل نے شہر جا کر کلثوم سے شادی کر لی ہے اور آج جب بوڑھا فیصل انجینئر بن کر اس علاقے میں سڑ ک کی تعمیر کے سلسلے میں چلا آتا ہے، تو وہی لاجی کی قبر سڑک کی تعمیر کے راستے میں حائل ہو جاتی ہے۔
اس واقعے کو سن کر بوڑھا انجینئر بہت افسردہ ہو جاتا ہے اور آخرِکار وہ سڑک بنانے والوں کو کچھ احکامات جار ی کر کے چندن کوٹ کی وادی سے روانہ ہوگیا۔ اگلے دن راستے میں آئی ہوئی قبر کو منہدم کر کے اس پر سے سڑک نکالی گئی اور اس طرح محبت کی یہ آخری یادگار بھی ختم ہوجاتی ہے۔
اے حمید کے قلم نے لاجی کے کردار کو زندگی بخشی ہے۔ گاؤں کی یہ دو شیزہ والہانہ طور پر محبت کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے اور قاری کو اس کے کردار سے فطری طور پر ہمدردی پیدا ہوتی ہے۔
اے حمید خوشی میں سے غم او رغم میں سے خوشی نکالنے کا ہنر جانتے ہیں۔ اُن کا یہ اُسلوب قریب قریب اُن کی ہر تحریر میں دکھائی دیتا ہے، مگر وہ ہر بار اس میں کوئی نیا پن بھی پیدا کر دیتے ہیں اور مماثلت سے بچ جاتے ہیں۔
………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔