علی عباس جلال پوری کا ناولٹ ’’پریم کا پنچھی پنکھ پسارے‘‘ (2011ء) ساون کے مہینے سے شروع ہوتا ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اگر ہوا چل رہی ہو، تو اس سے اچھا موسم اور کوئی نہیں ہوتا اور اگر ہوا نہیں ہو، تو اس سے بُرا موسم اور کوئی نہیں ہوتا۔
اس ناولٹ کا منظر نامہ متحدہ ہندوستان کے زمانے کی وادیِ جہلم ہے جو آج فوجی مشقوں اور چھاؤنیوں کا علاقہ سمجھا جاتا ہے اور یہاں کی سب سے بڑی پیداوار فوجی ہی ہیں۔ ہیر وکا نام بادشاہ ہے جو تعویذ، دم کرنے والے پیروں کا بیٹا ہے۔ اس کے تین ہی شوق ہیں: شکار، شطرنج اور عشق بازی۔ وہ بابو چمن لال کی بیٹی ’’کانتا‘‘ کے عشق میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ اس عشق میں مبتلا ہونے سے پہلے وہ ہوس کا پجاری تھا اور پیسے کے زور پر گاؤں کی ایک کٹنی جیونی کی مدد سے آس پاس کی لڑکیوں کا شکار کرتا تھا۔ لڑکیوں کو پیسہ اور قیمتی تحائف مل جاتے تھے اور گاؤں کے ایک بڑے نام والے خاندانی خوبصورت لڑکے کا قرب بھی۔ دونوں فریق اپنی اپنی جگہ خوش رہتے تھے۔ مگر کانتا، بادشاہ کے لیے ٹیڑھی کھیر ثابت ہوتی ہے۔ جیونی بادشاہ کے چھوڑے ہوئے گائیڈڈ میزائل کی طرح کانتا کو پھانسنے کے لیے ایک دن موقع دیکھ کر اس کے گھر جاتی ہے۔ مگر کانتا بھی اپنی الہڑ جوانی کے زور میں ہے۔ وہ جیونی کی پٹائی کر دیتی ہے۔ جیونی اپنی کہانی بادشاہ کو سناتی ہے، تو اُس کی آتشِ شوق اور بھڑک اٹھتی ہے۔
بادشاہ کی ایک پرانی شکار سیتہ، جیونی سے کہتی ہے کہ چھوڑو کانتا کو مَیں بادشاہ کو اس سے کہیں بڑھ کر سکون دوں گی۔ مگر بادشاہ ضد میں آچکا ہے کہ و ہ کانتا کو زیرِ دام لا کر رہے گا۔ وہ کانتا کی یاد میں مرغِ بسمل کی طرح تڑپنے لگتا ہے۔
ایک روز شکار کے دوران بادشاہ اتفاقیہ طور پر ایک کھڈ میں گر گیا اور حادثے کی شدت سے بے ہوش ہوگیا۔ کانتا بھی اپنی سکھیوں کے ساتھ کپڑے دھونے اور نہانے وہاں گئی ہوئی تھی۔ اس نے بادشاہ کو زخمی حالت میں دیکھا، جسے اُس کے ساتھی ڈنڈا ڈولی کرکے لے جا رہے تھے۔ بادشاہ کو ایسی قابلِ رحم حالت میں دیکھ کر کانتا کا دل نرم ہوگیا اوراُس کے دل میں بادشاہ کی محبت جاگ اٹھی اور وہ لمحہ بھر کے لیے اس کے گھر عیادت کے لیے بھی گئی۔ کانتا، جیونی سے اپنے سابقہ طرزِ عمل کی معذرت اور معافی تلافی کرتی ہے اور اُسے بادشاہ سے ملوانے کے لیے کہتی ہے۔ کانتا اور بادشاہ کی پہلی ملاقات میں گلے شکوے ہوتے ہیں۔ کانتا کے تحفظات ہیں۔ اُس کو بادشاہ کے سابقہ تمام معاشقوں کا پتا ہے۔ وہ جانتی ہے کہ بادشاہ بھنورا ہے، لیکن بادشاہ کانتا کو اپنے سچے پیار کا یقین دلانے میں کامیاب ہو جاتا ہے اور یہ معاشقہ آگے بڑھنے لگتا ہے۔ بادشاہ صاحبِ حیثیت ہے۔ اس لیے کانتا کو قیمتی تحائف پیش کرتا ہے جو وہ نہ چاہتے ہوئے بھی وصول کرلیتی ہے۔ بادشاہ، کانتا کو اپنے ساتھ کھانے کی آفر کرتا ہے، تو وہ ہندو ہونے کے باعث کھانے سے انکار کر دیتی ہے مگر پھر بھی پیار کے ہاتھوں مجبور ہو کر کدو کا حلوہ جو بادشاہ نے بڑے چاؤ سے اُس کے لیے بنوایا ہے، کھالیتی ہے اور اعتراف کرتی ہے کہ مسلمانوں کے کھانے زیادہ مزے دار ہوتے ہیں سوائے ہندوؤں کی کھیرکے۔ کانتا، بادشاہ کے ہاتھ سے آم بھی کھا لیتی ہے جو اُس کی مذہبی تربیت کے باعث مشکل ترین کام تھا۔ کیوں کہ آگ پر پکی ہوئی چیز میں پرہیز کی اتنی سختی نہیں جتنی کچی چیز میں سختی ہے ہندو مذہب میں۔
کانتا اور بادشاہ کا عشق رقعوں کے ذریعے پروان چڑھتا ہے جو بادشاہ کے گھر کی باہری دیوار کی درزوں میں رکھے اور وہاں سے اُٹھائے جاتے تھے۔ کانتا ایک ملاقات پر اپنے پیار کا شگون نکالنے کے لیے اپنے ہاتھوں میں پہنی کانچ کی کچھ چوڑیاں توڑتی ہے یہ کہتے ہوئے: ’’چوڑی توڑی جائے اور دو بڑے ٹکڑوں میں کوئی ننھا سا ٹکڑا الگ نہ ہو، تو پیار نہیں ہوتا۔ ٹکڑا نکل آئے، تو پیار سچا ہوتا ہے۔ ‘‘
اسی دوران میں بادشاہ اپنی گرمیوں کی چھٹیاں گزار کر پڑھنے کے لیے واپس لاہور چلا جاتا ہے۔ جدائی کا ٹنی دونوں کے لیے مشکل ہو جاتی ہے۔ کانتا خلوت کی ملاقاتوں میں بادشاہ کو بتاتی ہے کہ اُس کا باپ چمن لال اُس کا سگا باپ نہیں ہے اور وہ اپنی ماں کے لوافیئر کا نتیجہ ہے۔ بادشاہ کو کانتا یہ بھی بتاتی ہے کہ اُس کا سوتیلا باپ اس پر بُری نظررکھتا ہے اور اُس پر ایک ناکام جنسی حملہ بھی کرچکا ہے۔ کانتا اور بادشاہ کے پیار میں سے جیونی سہولت کار کی حیثیت سے نکل جاتی ہے اور اس کی جگہ کانتا کی رازدار سہیلی سومالے لیتی ہے۔ سوما کا بھی کسی کے ساتھ لوافیئر چل رہا ہے۔ شہر میں جہاں ہوسٹل میں رہتے ہوئے دوستوں نے بادشاہ کی اُداسی کا تدارک کرنے کے لیے کرایہ کا ایک مکان لیا اور وہاں غم غلط کرنے کے لیے غلط قسم کی لڑکیاں لانے لگے، مگر بادشاہ اب وہ پہلے والا بادشاہ نہیں رہاتھا۔ اندر سے بدل چکا تھا اور صرف کانتا ہی کا ہوچکا تھا۔ اس نے گھر آنے والی لڑکیوں پر کوئی توجہ نہ دی اور دوبارہ اپنے گاؤں جانے کے انتظار میں رہا۔ اُس دور میں سفر اتنا آسان نہ تھا جس کا احوال اس ناولٹ میں یوں لکھا ہے: ’’ہم لوگ ریلوے سٹیشن پر اُتر کر گھوڑے پر سوار دریا کے تپن پر جاتے۔ وہاں سے ناؤ میں بیٹھ کر بیلے پہنچتے اور بیلے سے پھر گھوڑے پر سوار ہو کر گاؤں کو جاتے تھے۔‘‘
بادشاہ اپنی محبوبہ کانتا کے لیے لاہور سے قیمتی تحائف لاتا ہے اور وہ اپنے پیار پر فخر کرتی ہے، مگر ایک رات کانتا کی جگہ سوما آجاتی ہے۔ بادشاہ گھبرا جاتا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ کانتا اُسے اس طر ح آزمانا چاہ رہی ہے۔ اصل بات سوما یہ بتاتی ہے کہ کانتا کے گھر میں رقعے اور تحفے پکڑے گئے ہیں۔ وہ زیرِ عتاب ہے۔ دونوں کا ہندو اور مسلمان ہونا بھی وجۂ نزاع ہے۔ اگلی رات کانتا، بادشاہ سے ملنے آتی ہے لیکن ساتھ اُس کی ماں بھی ہے۔ کانتا کی ماں بادشاہ سے کہتی ہے کہ تم نے میری بیٹی پر عمل کر دیا ہے، تعویذ گھول کر پلا دیے ہیں۔ اور بادشاہ سے طنزیہ طور پر کہتی ہے کہ تم میری بیٹی کو نیکی سکھا رہے ہو؟ جواب میں بادشاہ کہتا ہے: ’’نہیں! مَیں اس سے نیکی سیکھ رہا ہوں!‘‘ کانتا کی ماں بادشاہ کو ڈرانے کے لیے کہتی ہے کہ و ہ اس کی ماں سے شکایت کرے گی۔ جواباً بادشاہ اُسے کہتا ہے کہ اگر تمہاری بیٹی کا مجھ سے تعلق غلط ہے، تو اس کے سوتیلے باپ سے تعلق جو وہ زبردستی بنانا چاہتا ہے، مہا پاپ نہیں ہے؟ کانتا کی ماں بادشاہ کی اس با ت پر نرم پڑجاتی ہے۔ بادشاہ کے لاہورچلے جانے پر یہ معاملہ وقتی طور پر دب جاتا ہے مگر بادشاہ، کانتا کو ڈاک کے لفافے دے جاتا ہے، تاکہ آدھی ملاقات کا سلسلہ تو چلتا رہے۔
پھر و ہ گیت فلیش ہوتا ہے جس پر اس خوبصورت ناولٹ کا نام رکھا گیا ہے۔
’’پریم کا پنچھی پنکھ پسارے، برہا کا بان چلے‘‘
بادشاہ کا استقبال واپسی پر کھیر سے ہوتا ہے جس کے متعلق ہندوؤں کا دعوا ہے کہ یہ اُن سے بہتر اور کوئی نہیں بنا سکتا۔ کھیر کانتا اور سوما بنا کر لائی ہیں۔
’’ہم نے اس میں اتنا دودھ کھپایاہے کہ بس…… کھویا ہی بنا دیا ہے۔ ہم نے ناریل پیس کر ملایا ہے۔ آپ کے ہاں ناریل کتر کر ڈالتے ہیں۔ ہیں ناں؟‘‘
کانتا کی ماں جو کام رعب سے نہیں کروا سکی تھی، اب اپنے آنسوؤں سے کروانے بادشاہ کے پاس آجاتی ہے۔ وہ بادشاہ سے یہ وعدہ لے کر جاتی ہے کہ بادشاہ کانتا کو خود سے دور کر دے گا۔ کانتا کو اپنی ماں کی اس حرکت کا پتا چل جاتا ہے۔ وہ بادشاہ کے پاس آتی ہے اور گلہ شکوہ کرتی ہے۔
آخر مذہب، ذات پات، سماج سب مل ملا کر بادشاہ اور کانتا کے آڑے آتے ہیں اور دونوں چاہت کی شدت کے باوجود ایک دوسرے کے نہیں ہوپاتے۔ یہی اختتام ہے اس رومانوی ناولٹ کا جو قاری کو سیرابی کے ساتھ ساتھ ایک عجیب طرح کی تشنگی اور اُداسی بھی دے جاتا ہے۔
یہ ناولٹ بہت سی خوبیوں کا مالک ہے، کیوں کہ اسے لکھنے والا بہت بڑا فلسفی اور حقیقت پسند ادیب ہے۔ یہ ان کی وفات کے بعد طبع ہوا ہے۔ بہت حد تک یہ بھی بائیو گرافیکل ناولٹ ہے۔ ویسے بھی ہر ادیب کی پہلی نثری تحریر اس کی اپنی ذاتی زندگی پر ہی مبنی ہوتی ہے۔ کیوں کہ انسان کو خود سے اچھا اور کوئی نہیں لگتا اور اُسے اپنے بارے میں لکھنا ہی آسان ترین اور پسندیدہ لگتا ہے۔ مثال کے طور پر ناولٹ کے مرکزی کردار کا نام : ’’بادشاہ‘‘ چوں کہ علی عباس جلالپوری کا پورا نام سیّد علی عباس جلالپوری تھا، اس لیے انہیں علاقے کے لوگ لازماً ’’شاہ جی ‘‘ یا ’’شاہ صاحب‘‘ کہہ کر پکارتے ہوں گے جسے انہوں نے ناولٹ میں ’’بادشاہ‘‘ کر دیا۔ ناول کی دیگر جزیات یعنی بادشاہ کا لاہور میں پڑھنا اور ہاسٹل میں رہنا بھی خود علی عباس جلالپوری ہی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اگر یہ ناولٹ خود اُن کی زندگی میں طبع ہوتا، تو شائد وہ اس کے ’’سچی کہانی‘‘ ہونے کا بھی برملا اعتراف کرلیتے۔ کیوں کہ اُن کی شخصیت اتنی مضبوط تھی کہ و ہ یہ بات کہہ سکتے تھے۔ اس ناولٹ میں بہت سے مشکل اور نامانوس الفاظ کی وضاحت کی گئی ہے۔ جیسا کہ علی عباس جلالپوری صاحب کی تمام کتابوں میں موجود ہے۔ علی عباس جلالپوری اس قوم کو ابہام سے نکالنے کے لیے ساری زندگی کوشاں رہے مگر بہت کم لوگو ں نے ابہام کے گڑھے میں سے نکلنے کے لیے اُن کا ہاتھ تھاما۔
یہ ناولٹ اسلوبیاتی اور موضوعاتی سطح، دونوں پر ایک بڑا کارنامہ ہے۔ اس ناولٹ کی لفظیات بھی بہت مزا دیتی ہے اور ہمیں پرانے زمانوں میں لے جاتی ہے اور ایک طرح سے اس ناولٹ کی جان ہے۔
اس ناولٹ کی فضا بھی بہت خوش گوار لگتی ہے۔
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔