ناولٹ ’’وہ اور اس کا سایہ‘‘ (1967ء) کا مرکزی کردار رام بلی ہے جو سرمایہ داروں کا بدمعاش ہے۔ پورے منظر نامے کو سمیٹتا ہوا یہ نثری ٹکڑا رام بلی کی دہشت قاری پر طاری کر دیتا ہے: ’’لوگوں کا ہجوم پھر وہاں اکٹھا ہوگیا تھا۔ کسی میں اتنی ہمت نہ تھی کہ اُن کو چھڑا دے۔ راہو مہاراج کا تمام چہرہ لہولہان ہوگیا تھا۔ ہر بار جب بھی اُس نے رام بلی کی گرفت سے نکلنے کی کوشش کی، اُس کو یہی تجربہ ہوا کہ رام بلی کے ہاتھ فولاد کے بنے ہوئے ہیں۔ جب کوئی صورت نظر نہ آئی، تو وہ تکلیف سے بدحواس ہو کر زور سے چیخا: ’’ہائے مرا!‘‘ رام بلی نے اُس کی گردن چھوڑ دی مگر وہاں سے ہٹا نہیں۔ راہو مہاراج بے سدھ پڑا رہا۔‘‘
آخر ہجوم میں سے کچھ لوگوں نے نکل کر اُس کو اُٹھایا۔ اُس کی حالت بڑی غیر ہو رہی تھی۔ پھر دو آدمیوں کے کندھوں کا سہارا لے کر وہاں سے کراہتا ہوا چلا گیا۔ رام بلی نے اطمینان سے کھڑے ہو کر اپنے کپڑے جھاڑے اور تنبولی سے کہنے لگا: ’’لا بھائی ایک پان تو کھلا۔ گلا خشک ہو رہا ہے۔‘‘ بھیڑ اب چھٹنے لگی تھی۔ لوگوں کو اس کی بے نیازی پر بڑی حیرت ہوئی۔ دکان داروں میں سرگوشیاں ہونے لگیں۔ ’’آج سیر کا بھائی سوا سیر ملا۔‘‘، ’’مہاراج کا سارا گھمنڈ تکلے کے بل کی طرح نکال کے رکھ دیا۔‘‘، ’’بھئی دیکھنے میں تو ڈیڑھ پسلی کا آدمی لگتا ہے مگر صاحب ہاتھوں میں معلوم ہوتا ہے سیسہ پلا ہوا ہے۔‘‘، ’’یہاں یہ قوت بھی خداداد چیز ہوتی ہے۔‘‘ آس پاس دکانوں میں، راہ گیروں میں اسی طرح چرچے ہوتے رہے۔ رام بلی مزے سے کھڑا پان چباتا رہا۔ طوائفیں چھجوں پر کھڑی اُنگلیاں اُٹھا اُٹھا کر اُس کی طرف اشارہ کر رہی تھیں۔ چوک میں یہ واقعہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے بڑا حیرت انگیز تھا۔ کسی کے سان گمان میں بھی نہ تھا کہ راہو مہاراج ایسے چھٹے ہوئے بدمعاش کو کوئی اس طرح سرِ بازار نیچا دکھا دے گا۔‘‘
رام بلی علاقے کے بدمعاش کو چوک میں دو بار خاک چٹاتا ہے۔ طوائفیں اُس کی عاشق اور مداح بن جاتی ہیں۔ وہاں ’’اللہ رکھی‘‘ نامی طوائف اُس کی خدمت کرتی ہے۔ ایک نائیکہ کی اِغوا ہوتی ہوئی لڑکی کو رام بلی واپس لاتا ہے، تو تمام طوائفیں آپس میں فیصلہ کرتی ہیں کہ رام بلی کو اپنے پاس ہی رکھ لیا جائے اور اُس کا خرچہ سب چندہ کر کے پورا کریں، مگر رام بلی یہ تجویز سن کر بھڑک جاتا ہے اور خفا ہو کر کئی دن اُدھر نہیں آتا۔ اللہ رکھی کے پاس سیٹھ ترلوکی چند کا آنا جانا ہے۔ وہ رام بلی کو ترلوکی چند کے پاس ملازم کروا دیتی ہے۔
’’کئی ماہ اسی طرح گذر گئے۔ اس عرصہ میں وہ ترلوکی چند کے ہمراہ اللہ رکھی کے یہاں بھی گیا مگر اس دفعہ اس کی پہلی سی آؤ بھگت نہ ہوئی۔ وہ تمام وقت ترلوکی چند کے مسکہ لگاتی رہی۔ اُس کی ناز برداری کرتی رہی۔ بڑے صاحب کے سامنے اُس کی بھی اتنی ہمت نہ ہوئی کہ وہ اللہ رکھی سے ذرا بے تکلفی سے بات کرے۔ پہلے وہ اُس کو اللہ رکھی کہہ کر پکارتا تھا مگر اُس روز وہ اُس کو بائی جی کے علاوہ کسی اور لفظ سے مخاطب نہ کرسکا۔ لیکن اس کے بعد وہ اللہ رکھی کے بالاخانہ پر پھر نہیں گیا۔ ایک آدھ بار ترلوکی چند نے کہا بھی تو وہ کوئی نہ کوئی بہانہ کر کے ٹال گیا۔‘‘
رام بلی، ترلوکی چند کا ملازم ہو کر بور ہو جاتا ہے اور اُس سے کوئی کام کروانے کو کہتا ہے۔ ترلوکی چند اُسے انتظار کرنے کو کہتا ہے۔ کئی مہینے گذر جاتے ہیں۔ ایسے وقت میں نربدا رائے اور ترلوکی چند کی نئے کارخانے پر ڈیل ہونے لگتی ہے مگر یہ ڈیل اختلافات کا شکار ہو جاتی ہے جس پر ترلوکی چند اُسے مروا دیتا ہے اور رام بلی سے کہتا ہے کہ اُسے لے جا کر دفنا دے کہیں جس پر رام بلی اختلاف کرتا ہے۔
’’رام بلی تذبذب میں پڑگیا۔ کہنے لگا: ’’سرکار یہ تو سب کچھ ٹھیک ہے۔ پر ایک بات ہے!‘‘ وہ کہتے کہتے رُک گیا۔ ترلوکی چند نے جلدی سے پوچھا: ’’کیا بات ہے؟‘‘ وہ رُک رُک کر بولا: ’’صاحب مَیں سب کچھ کر لوں گا مگر نربدا رائے کی لاش کو میں کھود کر زمین میں نہیں گاڑ سکتا۔‘‘ ترلوکی چند ابھی تک حیرت زدہ تھا: ’’کیوں؟‘‘ رام بلی اسی انداز سے کہنے لگا: ’’ارتھی کو سرکار میں تیل ڈال کر پھونک تو سکتا ہوں مگر مٹی میں نہیں گاڑ سکتا۔‘‘ ترلوکی چند بگڑ کر بولا: ’’کیا واہیات بات کرتے ہو!‘‘ مگر رام بلی اپنی بات پر اڑا رہا۔ ’’آپ چاہے جو کچھ کہیں مگر یہ دھرم کی بات ہے۔‘‘
ایک بدمعاش اور قانون شکن ہوتے ہوئے بھی رام بلی دھرم کے نام پر ہٹ دھرم بن جاتا ہے۔ رام بلی نشے پر لگ جاتا ہے۔ بھنگ کے گلاس کے گلاس چڑھا جاتا ہے۔ اُس کا یارانہ ترلوکی چند کی ماں ’’رانی ماں‘‘ سے ہو جاتا ہے۔ جو رام بلی کے ہاتھوں کئی بار مار بھی کھاتی ہے مگر اُس سے پیار بھی کرتی ہے۔ کوئی بھی بڑا یہ برداشت نہیں کرتا کہ اُس کا ملازم اُسی کے منہ کو آ جائے۔ ترلوکی چند بھی رام بلی سے نالاں اور بیزار ہو جاتا ہے۔
’’لیکن اس روز کے بعد رام بلی کہیں نظر نہیں آیا۔ اُس کا کوارٹر خالی پڑا تھا۔ کسی کو کوئی علم نہیں تھا کہ وہ کہاں گیا۔ رانی بوا پردوار جا چکی تھیں۔ اور ترلوکی چند جرمنی جانے کی تیاریاں کر رہا تھا۔ اب ہولی جلنے والی تھی۔ کارخانے کے مزدور رات کو ٹولیاں بنا کر ہولی کے راگ جھوم جھوم کر گایا کرتے۔ جس روز ہولی جلائی گئی اُس روز کسی نے مزدوروں کی ٹولی میں آکر بتایا کہ پرانے قصبہ کے کھنڈروں میں سے ایک لاش ملی ہے۔ کہتے ہیں کہ وہ رام بلی ہے۔ مزدوروں میں ذرا دیر کے لیے سنسنی پھیل گئی۔ اُس روز تھانے کے باہر مردہ لے جانے والے صندوق میں ایک لاش رکھی جا رہی تھی۔ اس کے جسم پر کوئی کپڑا نہیں تھا۔ چہرہ آگ سے اس طرح جھلسا ہوا تھا دیکھ کر ونگٹے کھڑے ہوتے تھے۔ یہ رام بلی تھا، جو نامعلوم کیسے مرا اور کہاں مارا گیا؟ پولیس کی تفتیش سے بھی کوئی سراغ نہ مل سکا۔‘‘
شوکت صدیقی صاحب ِاُسلوب ادیب شمار ہوتے ہیں۔ اُن کے ناول ’’خدا کی بستی‘‘ کو دنیا کی 47 زبانوں میں ترجمہ او رلاکھوں کی تعداد میں شائع ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ کمال کی منظر کشی کرتے ہیں۔ وہ صرف نام کے بڑے ادیب نہیں بلکہ ہر بار اپنے کام سے خود کو منواتے ہیں۔ اُن کے اسلوب کی شناخت وہ معاشرہ ہے جو وہ اپنی ہر کہانی میں دکھاتے ہیں۔ ویسی کیفیات ہمیں اُن کے بعد اور کسی میں نظر نہیں آتیں۔
شوکت صدیقی کے اسلوب کی خاص بات اُن کی تحریر میں مزدور یا عام آدمی کے مسائل کا ذکر ہے۔ اُن کی کہانی غریب او رامیر کے ٹکراؤ ہی سے وجود میں آتی ہے۔ وہ امیر کو ہمیشہ استحصالی طبقے کے نمائندے کے طو رپر ہی منفی انداز میں دکھاتے ہیں جن کے لیے غریب کو چاروناچار کام کرنا ہی پڑتا ہے۔ یہی شوکت صدیقی کے اُسلوب کی پہچان ہے۔
…………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔