میں تو سب سے پہلے عزیز دوست جناب فضل ربی راہیؔ صاحب کا نہایت مشکور و ممنون ہوں جس نے وطن سے دور دیارِ غیر میں ہونے کے باوجود اپنی قیمتی اور معلوماتی کتاب مجھے تحفتاً عنایت کی۔ وہ ہمیشہ مجھے اچھی کتابوں کے تحفہ سے سرفراز کرتے رہتے ہیں۔ یہ اس کے اعلا ظرف کی نشانی اور علم بانٹنے کا جذبہ ہے جس کی جتنی بھی ستائش کی جائے کم ہے۔ موجودہ کتاب ’’وادیِ سوات میں جو ہم پہ گزری‘‘ ان کی اپنی تصنیف ہے۔ اس میں 2007ء کے پر آشوب اور خوں ریز دور سے لے کر 2019ء تک کے تمام سلسلہ وار مختلف وقتاً فوقتاً بدلتے ہوئے حالات و واقعات کا تفصیلی ذکر ہے جو فضل ربی راہیؔ صاحب نے روزنامہ آزادی میں پہلے اداریوں اور بعد میں کالموں کی صورت میں سپردِ قلم کیے ہیں۔ اس بارے اُستادِ محترم شجاعت علی راہی صاحب کتاب پر اپنے دیباچہ میں یوں رقم طراز ہیں: ’’ اس بھیانک منظر نامے کا مشاہدہ ایک حساس روح فضل ربی راہیؔ نے اپنی کھلی آنکھوں سے کیا۔ وہ اس ماحول کا پرور دہ ہے۔ یہیں کی خوبصورتیوں میں پلا بڑھا ہے اور حسین روایتیں اور محبتیں سمیٹنے اور بانٹنے کا خواہش مند ہے۔ لیکن اُس نے عالمِ شباب میں اپنے چاروں طرف رقصِ ابلیس ہوتے دیکھا۔ اپنے پیاروں کو دہشت اور وحشت کی بھٹی میں جلتے اور سلگتے پایا۔ دہشت کی اس فضا میں اکثریت ان لوگوں کی تھی جو دبکے بیٹھے رہے اور اپنی کھال بچانے کے عمل میں مصروف رہے۔‘‘
لیکن فضلِ ربی راہیؔ صاحب اُن کرداروں میں سے نہیں ہیں جو دبکے بیٹھے رہیں یا اپنی کھال بچانے کی کوشش کریں۔ وہ اُن کہنہ مشق لکھاریوں میں سے ہیں جو حق اور سچ کو تحریر کرنے کے لیے ہمیشہ سر کو ہتھیلی پر رکھ لیتے ہیں۔ اس سے پہلے اسی موضوع پر اُس کی پہلی کتاب ’’اور سوات جلتا رہا‘‘ شائع ہوچکی ہے جو سوات میں ’’طالبانائزیشن‘‘ کے اصل حقائق پر روشنی ڈالنے والی پہلی کتاب ہے۔ سوات میں جب دہشت گردی کی تخم ریزی کی گئی، تو اُس وقت راہی صاحب روزنامہ ’’آزادی سوات‘‘ کے ساتھ سینئر ایڈیٹر کی حیثیت سے وابستہ تھے۔ روزانہ اخبار کا ادارتی صفحہ مرتب کرتے تھے۔ اس میں سوات کی سنگین صورتِ حال پر نہ صرف خود کالم لکھتے بلکہ سوات کے فہمیدہ اور سنجیدہ حضرات کو بھی اپنے ادارتی صفحہ میں سوات کے حوالے سے لکھنے کے لیے راغب کرتے رہتے تھے۔ اس کے علاوہ کبھی کبھار اخبار کا اداریہ لکھ کر زخموں سے چور سوات اور مظلوم اہلِ سوات کی کرب و اذیت اصل مقتدر قوتوں تک پہنچانے کی کوشش کرتے۔ تاکہ بنائے گئے شدت پسندوں اور امن کے نام پر بے گناہ انسانوں کا خون بہانے والی قوتوں کو پیغام دیا جاسکے کہ جو کچھ سوات اور اہلِ سوات کے ساتھ کیا جارہا ہے اس پر ہم مہر بہ لب نہیں ۔
اس کتاب ’’وادیِ سوات میں جو ہم پہ گزری‘‘ کے دو حصے ہیں۔ ایک حصہ روزنامہ ’’آزادی‘‘ میں شائع ہونے والے وہ منتخب اداریے ہیں جنہیں راہی صاحب نے سوات میں روزانہ رونما ہونے والے خونیں واقعات کے نتیجے میں ابھرنے والے فوری تاثر کے زیر اثر قلم برداشتہ تحریر کیے ہیں اور دوسرا حصہ ان کالموں پر مشتمل ہے جو انہوں نے دہشت گردی سے متاثرہ سوات، اہلِ سوات اور پختونوں کے زخمی وجود سے رستے ہوئے خون کے ردِ عمل میں درد اور اذیت میں ڈوب کر لکھے ہیں۔ ان میں بعض کالم روزنامہ آزادی، جنگ لندن، نئی بات لاہور اور بیشتر کالم ہم سب کی ویب سائٹ پر شائع ہوئے ہیں۔ ان منتخب اداریوں اور کالموں کو کتابی صورت میں شائع کرنے کا مقصد اُس دور کے حالات و واقعات کو تاریخ کے اوراق میں محفوظ بنانا ہے، تاکہ مستقبل کے مؤرخ اور ہماری آنے والی نسل کو اس دور کی تاریخ سے آگاہ کیا جاسکے۔
لیکن ہمارے نوجوان نسل کا المیہ یہ ہے کہ انہیں اپنی قوم کی کوئی فکر نہیں۔ یہاں اجتماعی سوچ کا فقدان ہے۔ ورنہ جو کچھ سواتیوں پر بیت چکا ہے، اس کا اندازہ لگانا ناممکن ہے۔ اس درد ناک، عبرتناک اور پُرآشوب دور کے گزرنے کے بعد ہمیں اس سے سبق حاصل کرنا چاہیے تھا۔ بہ حیثیتِ اہلِ سوات مل بیٹھ کر اس پر سوچنا چاہیے تھا کہ یہ ہمارے ساتھ کیوں ہوا اور کس نے کیا؟ نیز ہمارا دوست کون ہے اور دشمن کون! آئندہ کے لیے ایسے قومی سانحوں کا سدباب کیسے کیا جائے؟ لیکن یہ تو تب ہوگا جب ہمارے جوان اور تعلیم یافتہ لوگ ایسی کتابیں پڑھ لیں جن میں اُس خونی دور کا ذکر کیا گیا ہو، اُس کے اسباب پر روشنی دالی گئی ہو۔ حالات و واقعات کا گہری نظر سے تجزیہ کیا گیا ہو۔ ہم نے تو کتاب نہ پڑھنے کی قسم کھائی ہے، تو معلومات کہاں سے آئیں گی! فکر کا پودا پروان کیسے چھڑے گا؟ سیاسی شعور کیسے بیدار ہوگا؟
فضل ربی راہی صاحب کی یہ کتاب اُس خونی داستان کی لمحہ بہ لمحہ تاریخ ہے۔ اُس خونی داستان جس نے ہماری فکر کو زنگ آلود کیا ہے، جس نے ہمارے پر کاٹ دیے ہیں۔ وہ درد ناک داستان جس نے ہمارے آرزوؤں اور ارمانوں کا خون کیا ہے، جس نے ہمارے حوصلے اور جذبے خاک میں ملا دیے ہیں جو سلوک اور ہتک آمیز رویہ ہمارے ساتھ رکھا گیا، اُس نے ہم سب کو اپنی نظروں میں گرادیا ہے، لیکن راہی صاحب نے اپنی بے باک اور جرأت بھری تحاریر سے وقتاً فوقتاً سواتی قوم کو آگاہ رکھا۔ اُس نے کمال جرأت مندی اور بہادری سے دوست، دشمن کی پہچان کرائی۔ اچھائی اور برائی کی نشان دہی کی۔ قوم کو جگانے کی ترغیب دلائی۔ کسی ڈر اور خوف کے بغیر جھوٹ، دہشت، رعب اور دبدبہ کے اندھیروں میں سچائی اور حقیقت کہ ایسے روشن مینار کھڑے کیے جس کی کرنیں آج بھی جگمگارہی ہیں۔ اُس نے قوم کے مستقبل کے لیے اور صحیح راستہ اور منزل دکھانے کے لیے اپنے قلم کی لاج رکھی ہے۔ ضمیر کی آواز پر لبیک کہا ہے۔ اُس نے اپنی جان و مال کی پروا کیے بغیر قلمی جہادسے دریغ نہیں کیا ہے۔ وقت آنے پر اُس نے ہمیشہ اپنے ذاتی اور کاروباری مفاد، قومی مفاد پر قربان کیے ہیں۔
اپنے نظریے اور فکر کے ساتھ مخلص لوگ بہت کم ملتے ہیں۔ صحافت کا پیشہ تو آج کل منافع بخش کاروبار بن چکا ہے، لیکن راہی صاحب منجھے ہوئے صحافی اور کالم نگار کے ساتھ ساتھ بلا کا نڈر اور بے باک انسان ہے۔ اُس کا قلم صرف قلم نہیں بلکہ وہ جراحی نشتر ہے جو معاشرے کے گندے ناسور، پیپ وغیرہ کو صاف شفاف کردیتی ہے۔ مَیں اس کتاب کے بارے میں یہ ببانگِ دہل کہتا ہوں کہ بلا شبہ راہی صاحب کا قلم اُس کی فکر کی صحیح عکاسی کرتا ہے۔
اس کتاب میں کیا ہے؟ انسانی حقوق کی فعال کارکن اور سرکردہ رکن، پختون تحفظ موومنٹ کی سپورٹر محترمہ ثنا اعجاز نے کتاب کے بارے میں جو جامع اور مختصر تبصرہ دیباچہ میں کیا ہے، اس سے زیادہ خوبصورت تعارف اور نہیں ہوسکتا۔ وہ لکھتی ہیں: ’’سوات پر گزری قیامت اکیلے سوات پر نہیں بلکہ پورے پختونخوا وطن پر دہشت گردی اور انتہا پسندی کی پالیسیوں کے تسلسل کی صورت میں گزرتی رہی ہے۔ اس کا بے لاگ تذکرہ اس کتاب کا طرۂ امتیاز ہے۔ راہی صاحب کی اس کتاب میں سواتی شدت پسندوں اور ان کے تخلیق کار ریاستی اداروں کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، جنگی جرائم، چاہے وہ ماحولیات سے متعلق ہوں یا جبری گمشدگیوں، اجتماعی سزاؤں اور میڈیا کے بلیک آؤٹ کے بارے میں ہوں یا پھر جنگ مخالف تحریک پشتون تحفظ موومنٹ کے حوالے سے ہوں، ان سب کا ذکر موجود ہے۔ راہی صاحب کی اس کتاب کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ یہ آگ اور خون میں نہلائے جانے والی اس جنت نظیر وادی کی تباہی میں ملوث اہم پہلوؤں کے ساتھ ساتھ یہاں تخلیق کیے گئے ’’طالبانائزیشن‘‘ کے فتنے اور اسے مٹانے کے لیے ’’عسکری آپریشنوں‘‘ کے علاوہ فوجی چھاؤنی اور ڈالروں کی امداد جیسی حقیقتوں کو آشکارا کرتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اُن وقتوں میں پختونخوا وطن اور خصوصی طور پر جنگ زدہ علاقوں میں کوئی سرگوشی میں بھی ان میں بیان کیے گئے بعض حقائق کا ذکر نہیں کرسکتا تھا۔ اس لیے ہم فضل ربی راہی کے جرأت مندانہ قلم سے لکھی گئی باتیں پڑھ کر انہیں ہم اپنے آنے والی نسلوں کے لیے ایک اہم دستاویز سمجھتے ہیں۔‘‘
یہ ہیں ثنا اعجاز کے کتاب کے بارے میں زرین خیالات جس سے انکار اور اختلاف کی ہر گز گنجائش نہیں۔ سوات کے حالات کے بارے میں راہی صاحب کی اس سے پہلے والی کتاب ’’اور سوات جلتا رہا‘‘ مجھے سعودی عرب میں پہنچادی گئی تھی۔ کتاب پڑھنے کے بعد مَیں نے راہی صاحب کو لندن فون کیا، مَیں نے پوچھا کہ ’’راہی صاحب! کیا آپ واپس پاکستان نہیں جا رہے؟‘‘ جواب ملا، ’’کیوں نہیں، ضرور جاؤں گا!‘‘ میں نے بھی جواباً کہا کہ کتاب پڑھنے کے بعد تو ایسا نہیں لگ رہا۔ کیوں کہ کوئی کسر تو آپ نے چھوڑی نہیں، کسی کو بخشا نہیں، لکھا آپ نے ہے اور ڈر میں رہا ہوں۔
336سفید اور خوبصورت صفحات پر مشتمل یہ بھاری بھرکم مجلد کتاب وقت آنے پر سچائیوں اور حقائق کے جوہر شناسوں کے دلوں اور خیالوں پر راج کرے گی۔ تاریخی فیصلوں کی ترازو میں تولی جائے گی۔ وہ وقت آنے والا ہے جب فضل ربی راہی صاحب کے اداریوں اور کالموں پر تاریخ اپنی سچائی کا مہر ثبت کردے گی۔ اُس کی قربانی رائیگاں نہیں جائے گی۔
کتاب کے آغاز میں سوات سے تعلق رکھنے والے مایہ ناز شاعر احمد فواد کی ایک طویل نظم ’’سوات زخموں سے نڈھال‘‘ کتاب کے ماتھے پر ایک خوبصورت جھومر کی طرح جگمگ جگمگ کررہا ہے۔ نظم کیا ہے ایک نوحہ ہے، ایک دردِ مسلسل ہے، ایک آہ ہے، فریاد ہے اور آنسوؤں کو الفاظ کا جامہ پہنایا گیا ہے۔ پورے سوات کی آہوں، سسکیوں، چیخوں، ارمانوں، آرزوؤں کا نوحہ اس نظم میں کیا گیا ہے۔ خدا کی زمین مخلوق خدا پرتنگ کی گئی تھی اور آسمان کے کناروں تک مظلوموں کی آہ پہنچ رہی تھی، خود مظلوم نہیں۔
مشتے نمونہ از خروارے کے مصداق ایک بند ملاحظہ ہو:
سر کٹی لاشوں نے ان چوکوں کا ماضی کھالیا
گولیوں کی تڑ تڑاہٹ آسمانوں تک گئی
اپنے سوئے پاسبانوں تک گئی
کوچہ کوچہ گھوم پھر کر
موت کے قدموں نے سارے شہر کو اپنالیا
سوات زخموں سے نڈھال
احمد فواد صاحب نے اگر ایک جانب حقِ شاعری ادا کیا ہے، تو دوسری طرف مٹی کا حق بھی ادا کیا ہے۔ احمد فواد صاحب نے سوات کے دریاؤں، چشموں اور پہاڑوں کو زبان دی ہے۔ انہوں نے چناروں، ہواؤں، زخمی انسانوں کے ساتھ زخمی فاختاؤں کو بھی زبان دی ہے۔ اُس کی شاعری پورے سوات کی کائنات کی نمائندگی کررہی ہے۔ وہ صدا بہ صحرا نہیں۔ ایک طرح سے احمد فواد صاحب کی شاعری انسانی زخموں پر گویا مرہم جیسی محسوس ہورہی ہے جب کہ انسانی ارمانوں کی تھکن کو آہستہ آہستہ تھپکارہی ہے۔
فضل ربی راہی صاحب کا یہ قلمی کارنامہ (وادیِ سوات میں جو ہم پہ گزری) دو حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلے حصے میں وہ اداریے شامل ہیں جو راہی صاحب نے بطورِ مدیر روزنامہ ’’آزادی‘‘ کے لیے لکھے۔ کتاب کا دوسرا حصہ بے شمارمختلف موضوعات پر لکھے ہوئے کالموں پر مشتمل ہے۔ انہوں نے ہر موضوع کے ساتھ انصاف کیا ہے۔ اپنے مؤقف کو عوامی اور ریاستی مفاد کے ساتھ برابر کرکے انتظامیے کی بھر پور توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی ہے۔
دلچسپ صورتِ حال یہ ہے کہ ان میں سے کالم اگر اُس وقت کے تقاضوں کے مطابق تھے، تو ان کی آج بھی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے۔ کیوں کہ کالموں میں راہیؔ صاحب نے جن مسائل کی نشان دہی کی ہے، وہ آج بھی موجود ہیں اور ضروری طور پر حل طلب ہیں۔ ان کالموں میں چیک پوسٹوں پر توہین آمیز رویہ اور سلوک اور عوام کو درپیش مسائل، سیر و سیاحت کے حوالے سے مطالبات اور عوامی مشکلات کا اِزالہ، ہندو، سکھ برادری کے اقلیتی حقوق کے حوالے سے تحفظات، صحافت اور میڈیا کے حوالے سے خونیں دور میں ظلم اور بے انصافیوں کی داستانیں، مختلف عوامی مسائل کے بارے میں دوغلی پالیسی، فوج اور طالبان کے محاصرے، چادر اور چار دیواری کے تقدس کی پائے مالی، 5مئی کی ہجرت، لاکھوں سواتیوں کی در بہ در ہونے کی دردناک داستان، بچوں، بوڑھوں، مریضوں اور خواتین کی تکالیف، پریشانیوں کی درد ناک کہانیاں، تعلیمی اداروں کی بے دردی سے تباہی اور سوات کے عوام کو تعلیمی سہولت سے محروم کرنا، وقتاً فوقتاً سوات کی ترقی کے لیے مقتدر حلقوں کی طرف سے اربوں روپوں کے پیکیج کا اعلان اور پھر طویل خاموشی اور عمل دخل نہ کرنا، دارالقضا کے قیام کا فیصلہ اور مسئلہ، طالبانائزیشن کے بعد سوات کی صورتِ حال، فوجی عدالتوں کے قیام پر رضامندی اور تحفظات، شورش کے دوران میں سوات میں صحافیوں کا کردار، سوات میں ٹارگٹ کلنگ اور بھتا خوری، وطنِ عزیز کے رنگ نرالے، کیا سوات میں فوجی چھاؤنی کا قیام ناگزیر ہے؟، منظور پشتین اور پشتون تحفظ موومنٹ کی تحریک اور کردار، پختونوں کا بڑھتا ہوا عدم تحفظ اور ریاست کی خاموشی، سواتی عوام کے لیے ریاست نے ماں جیسا کردار کیوں ادا نہیں کیا؟ سواتی عوام کی مشکلات، مسائل، قتلِ عام اور خون ریزی کے حوالے سے پاکستانی حکمرانوں اور سیاسی لیڈروں کی بے حسی، بے پروائی اور بے گانہ پن…… غرض ایسے بے شمار اہم موضوعات سے زیرِ تبصرہ کتاب اٹی پڑی ہے۔
سوات کے مسائل، مشکلات، واقعات، ظلم و بے انصافی اور تاریخی سچائی کے بارے میں جاننا ہر سواتی کا فرض ہے۔ اگر وہ ان فرائض کو بہ طریقِ احسن پورا کرنا چاہتا ہے، تو اُسے چاہیے کہ پہلے یہ کتاب خرید کر غور سے پڑھے اور سمجھے، تو ہر سواتی کے چودہ طبق روشن ہوجائیں گے۔
اب قارئین کی دلچسپی کے لیے میں بعض کالموں سے کچھ اقتباسات نقل کرنا چاہتا ہوں۔ اس سے راہی صاحب کی کوششوں اور جرأت مندانہ صحافت اور بے باک اندازِ تخاطب کا احساس ہوجائے گا۔
’’سوات میں دوبارہ آپریشن‘‘ کے بارے میں اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں: ’’یہ کیسا ملک ہے؟ یہ کس طرح کے محافظ ہیں؟ یہاں قانون اور اخلاق نامی کوئی چیز نہیں۔ جب حکومت کا جی چاہتا ہے۔ وہ پُرامن مذاکرات کے گن گانے لگتی ہے، اور جب اُس کی خواہش ہوتی ہے وہ آگ اور خون کا کھیل گرم کرنے لگتی ہے۔ مقتدر طبقے چین کی بانسری بجارہے ہیں اور ان کے کالی کرتوتوں کی سزا معصوم اور پُرامن شہریوں کو بھگتنا پڑتی ہے۔ خدا کے لیے اس ملک کے بے بس، مظلوم، مقہور اور پُرامن شہریوں پر رحم کیجیے۔‘‘
’’کیا سوات کا کوئی والی وارث ہے؟‘‘ کے موضوع کے تحت درجِ ذیل اقتباس ملاحظہ کیجیے:
’’سوات میں گوشت پوست کے انسان رہتے ہیں۔ یہ پتھر کے بنے ہوئے لوگ نہیں کہ آپ آپریشن کے نام پر کبھی ان کو توپ کے گولوں کا نشانہ بنائیں گے، کبھی ان کے گھر بار تباہ کریں گے، ناجائز اور بے مقصد کرفیو کے ذریعے سوات کی معیشت کی تباہی کا سامان فراہم کریں گے۔ کبھی چیک پوسٹوں پر عوام کی عزتِ نفس سے کھیلیں گے اور کبھی رات کو انہیں ’’ڈاکوؤں‘‘ کے رحم و کرم پر چھوڑیں گے۔ سوات کے لوگ واقعی شریف ہیں۔ پُرامن ہیں۔ قانون کا احترام کرنے والے ہیں۔ امن کے نام پر ہر ظلم و جبر برداشت کرنے والے ہیں لیکن اگر ان کا پیمانۂ صبر لبریز ہوا، تو پھر سوات میں کہیں امن نہ ہوگا۔‘‘
ایک اور کالم میں انتظامیہ کو خبردار کرتے ہوئے نہایت واضح اور صاف الفاظ میں کچھ اس طرح رقم طراز ہیں:
’’اس وقت سوات کے عوام کے دلوں میں ایک لاوا پک رہا ہے۔ عوام اور فوج کے درمیان نفرت کی خلیج وسیع سے وسیع تر ہوتی جا رہی ہے۔ یہ لاوا اور نفرت کسی بھی وقت ضبط کے بندھنوں کو توڑ سکتی ہے۔ دلوں کے اندر پکنے لاوا کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔ مقتدر قوتوں کو یاد رکھنا چاہیے۔ اگر یہ لاوا پھٹ پڑا اور نفرت کی یہ آندھی طوفان جھکڑوں کی صورت میں چلنے لگی، تو بہت نقصان ہوگا۔ حالات کے تیور کسی خونی انقلاب کی گواہی دے رہے ہیں اور اگر انقلاب برپا ہوا، تو اس کا کوئی لیڈر اور رہنما نہیں ہوگا اور کسی رہنما و رہبر کے بغیر عوام اگر ایک بار بپھر گئے، تو انہیں روکنا کسی کے بس میں نہیں ہوگا۔‘‘
’’وادیِ سوات، حکومت کی بے حسی کا زندہ نمونہ‘‘ نامی کالم میں سواتی عوام کی مظلومیت اور حکمرانوں کی بے حسی کو ان حساس اور حقیقی الفاظ کا استعمال کس باغیانہ لہجے اور انداز میں کرتے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔
’’سوات کے عوام جیسے تیسے کرکے اس درد ناک مرحلے سے گزر جائیں گے۔ اپنے خون کے ساگر کو پار کرلیں گے۔ اپنی لاشوں کو بے گور و کفن مٹی میں دفن کریں گے۔ اپنے آنسوؤں، آہوں کو پی جائیں گے لیکن اسلام آباد کے حکمرانوں اور وہاں کی سیاسی پارٹیوں نے خواہ پیپلز پارٹی ہو یا مسلم لیگ ہو، جمعیت ہو یا کوئی اور جماعت، سب نے جس بے حسی اور اَن جانے پن کا مظاہرہ کیا ہے، وہ کبھی بھولنے والا نہیں ہے۔ سوات کے لوگوں نے ہر در پر دستک دی ہے۔ ہر ایوان کو پکارا ہے۔ شاہراہوں پر فریادیں کی ہیں۔ ہر کسی کے آگے امن کے لیے جھولی پھیلائی ہے۔ دہائی دی ہے۔ واسطے دیے ہیں۔ ملاقاتیں کی ہیں لیکن کسی نے ہمارے سر پر ہاتھ نہیں رکھا۔ کسی نے اہمیت نہیں دی۔ کہیں بھی شنوائی نہ ہوئی۔ بے حسی کا ایسا مظاہرہ انسانی تاریخ میں نہیں ملتا اور اس بے حسی کا خمیازہ انہیں بھگتنا پڑے گا، اور ان سب کو تاریخ کے کٹہرے میں جواب دینا پڑے گا۔‘‘
دل کی اتھاہ گہرائیوں سے وہ کتنی چاہ اور درد سے سوات کا نوحہ بیان کررہا ہے۔ یہ بیان، یہ اندازِ تحریر فضل ربی راہی صاحب کا ہی خاصہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ راہیؔ صاحب نے سوات کی حالتِ زار بیان کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ انہوں نے ہر حربہ آزمایا ہے۔ حکمرانوں، سیاست کاروں کو بار بار جھنجھوڑا ہے۔ خبردار کیا ہے لیکن ایسا لگ رہا ہے کہ ہمارا نصیب ازل سے سوگیا ہے۔ جیسے تباہی و بربادی ہماری مقدر میں لکھی گئی ہو۔ جھوٹ اور دوغلی پالیسی نے ہماری قوم کا بیڑا غرق کردیا ہو۔
ذرا ملاحظہ کیجیے کہ راہی صاحب نے ایسی صورتِ حال کو کس خوبصورتی سے بیان کیا ہے:
’’جب تک ہم دوغلی پالیسی کو خیر باد نہیں کہیں گے۔ جب تک ہم اپنے ملک کی سرحدوں کے تقدس کو بحال نہیں کریں گے۔ جب تک ہم اپنے ملک اور عوام کی سلامتی کو مقدم نہیں رکھیں گے۔ ہم یوں ہی ذلیل و خوار ہوتے رہیں گے۔ پوری دنیا میں ہماری کوئی ساکھ اور عزت نہیں ہوگی۔ ہم پوری دنیا میں تماشا بنے رہیں گے۔ مہذب ممالک محض اپنے ایک شہری کی حفاظت کے لیے پوری دنیا میں ہل چل مچانے سے دریغ نہیں کرتے، لیکن ایک ہم ہیں کہ روز درجنوں بے گناہ انسان لقمۂ اجل بنتے ہیں اور ہمارے حکمرانوں اور اصل مقتدر قوتوں کے معمولات زندگی پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘‘
’’وادیِ سوات میں جو ہم پہ گزری‘‘ ایک ایسی کتاب ہے جس میں سوات کے تمام دکھ، درد بیان کیے گئے۔ حالات و واقعات پر رونا دھونا، افسوس کرنا، بھی کوئی ناجائز نہیں۔ لیکن مستقبل کے لیے کوئی لائحہ عمل اور پروگرام اگر نہیں ہے، تو اور بھی دُکھ اور افسوس کی بات ہے۔ کیوں کہ تاریخ میں اپنے ذاتی مفادات کو ترجیح دینے والی قومیں صفحۂ ہستی سے مٹ جاتی ہیں۔ اگر آپ سوات کو اپنا وطن سمجھتے ہیں۔ اس کی مٹی سے وفادار ہیں۔ ظلم و بربریت کی وجوہات معلوم کرنا چاہتے ہیں اور خوں ریز واقعات کو محسوس کرنا چاہتے ہیں، تو آپ کو یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہیے۔ حقائق تلخ ہوتے ہیں لیکن سامنا تو کرنا پڑتا ہے۔ ہم کب تک منھ چھپاتے رہیں گے؟‘‘
مَیں، فضل ربی راہی صاحب کو اس خوبصورت کتاب کی اشاعت پر دل سے مبارک باد دیتا ہوں۔ یہ صرف کتاب نہیں بلکہ ایک تاریخ ہے اور بلا شبہ تاریخ کبھی نہیں مرتی۔ تاریخ حق و انصاف کا فیصلہ کرے گی۔ جھوٹ اور سچ کا امتیاز کرے گی۔
دعا ہے کہ فضل ربی راہی صاحب کی ہمت ہمیشہ جواں رہے۔ قلم امانت رہے اور انگلیاں سلامت رہیں۔ مَیں آخر میں احمد فواد صاحب کی اس بہترین نظم سے ایک بند لکھ کر اجازت چاہوں گا، اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو، آمین!
رونے دھونے سے نہیں ہوتا کسی دکھ کا علاج
اس مصیبت سے نکلنے کی کوئی تدبیر ہونی چاہئے
خوش نما نعروں سے دھوکہ دے رہے ہیں قوم کو
ظالموں کے ظلم کی تشہیر ہونی چاہئے
سوات زخموں سے نڈھال
گن گناتی ندیاں فریاد میں مصروف ہیں
قہقہوں کی سرزمین اب آنسوؤں کا دیس ہے
……………………………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔