جدیدیت کی انسان مرکزیت سے مابعد جدیدیت کی عدم مرکزیت کے سفر کے دوران انسانی زندگی اور ادب نے کئی موڑ کاٹے۔
جدیدیت اور مابعد جدیدیت کے درمیان جو سب سے بڑا اختلاف ہے، وہ ان دونوں کے درمیان تصورِ انسان کے اختلاف سے پیدا ہوتا ہے۔ 20ویں صدی میں جب علوم کو فروغ ملا اور یونانی علوم جو کہ پہلے یورپ میں عدم مرکزیت کا شکار ہوکر رہ گئے تھے، ان کی دوبارہ ترویج و اشاعت ہوئی۔ تصورِ انسان جس کا بنیادی اور محوری تصور تھا۔ انسان پرستی کے فکری عہد اور تہذیبی نظامِ اقدار کے آئینے میں جب 20ویں صدی کی تحریکوں وجودیت اور مارکسزم پر نظر ڈالی جائے، تو ان دونوں تحریکوں کا مرکز و محور انسان پرستی تھا۔
سارتر کے مشہور و مقبول الفاظ ’’وجودیت انسان پرستی ہے‘‘ نے فکری طور پر جس انسانیت کی بات کی وہ 20ویں صدی ہی میں جدیدیت اور وجودیت کے ملبے میں گم ہوکر رہ گیا۔ دونوں ہی فکری نظام اپنے تصورِ انسان کے ساتھ ڈوب گئے، یوں وہ انسان ریزہ ریزہ ہوکر انجانی فضاؤں میں گم ہوگیا جس کی بنا پر یہ نظریات قائم کیے گئے اور ان فکری تحریکوں سے وابستہ ڈسکورس بھی تاریخ کی گرد میں گم ہوگیا۔
(’’تنقیدی نظریات اور اصطلاحات‘‘ از ’’ڈاکٹر محمد اشرف کمال‘‘، مطبوعہ ’’نیشنل بک فاؤنڈیشن‘‘، اشاعت دسمبر 2019ء، صفحہ نمبر 103 سے انتخاب)