اظہاریت یا باطن نگاری (Expressionism) دراصل مدعا اور دل میں آنے والی ہر بات کو کہہ دینے کا نام ہے۔
ذہن جو کچھ سوچتا ہے، فکر جتنے تانے بانے بنتی ہے، اسے اگر اظہاریت میں نہ لایا جائے، یا اس کا اظہار نہ کیا جائے، تو انسان کی زندگی میں ایک خلا پید اہونے کا امکان ہے۔ بعض حالات و واقعات، حادثات اور مشاہدات انسانی زندگی پر گہرے اثرات چھوڑ دیتے ہیں۔ ان اثرات کے اظہار کے لیے کوئی نہ کوئی وسیلہ درکار ہوتا ہے۔
اظہاریت بیان کا نام ہے جس کا مقصد ذہن میں آنے والے خیالات کو محفوظ کرنا ہے کہ کہیں وہ اظہار نہ ہونے کے سبب انسانی سوچ کی گھٹن میں دب کر نہ رہ جائیں اور اپنا وجود نہ کھو دیں۔ جو چیز اظہاریت کے دائرہ کار میں آجاتی ہے، وہ محفوظ ہوجاتی ہے۔
اظہاریت میں جذبات و احساسات اور خیالات و تجربات کو بنیادی اہمیت دی جاتی ہے۔ کیوں کہ تخیل اور احساس ہی کی بدولت انسانی ذہن میں وہ کچھ آتا ہے جو کہ اظہارکے لیے کوئی نہ کوئی پیمانہ مانگتا ہے۔ اگر ان باتوں کا اظہار نہ ہو، تو فنکار کی زندگی پر اس کے منفی اثرات بھی پڑسکتے ہیں۔
(’’تنقیدی نظریات اور اصطلاحات‘‘ از ’’ڈاکٹر محمد اشرف کمال‘‘، مطبوعہ ’’نیشنل بک فاؤنڈیشن‘‘، اشاعت دسمبر 2019ء، صفحہ نمبر 168 اور 169 سے انتخاب)