بھارتی گیت نگاروں میں 1965ء سے 1980ء کے دور کی ابتدا کا ایک ایک اہم ترین نام اندیور (1924ء تا 1997ء) ہے۔
اگرچہ اندیور نے بھی گیت لکھنا 1949ء میں شروع کر دیا تھا لیکن 65ء کے بعد ان کے لکھے گئے گیت زیادہ مقبول رہے۔
اندیور کے گیتوں میں ہندی الفاظ اور تراکیب کی آمیزش ’’شلیندر‘‘ اور ’’راجندر کرشن‘‘ سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ اندیور اُردو اور ہندی کے امتزاج سے مقبولِ عام گیت لکھنے والا سب سے بڑا نام ہے۔ وگرنہ یہ ایک حیرت انگیز حقیقت ہے کہ ہندوستان میں ہندی زبان میں لکھے گئے گیت یا زیادہ ہندی کے امتزاج سے لکھے گئے اُردو گیت اکثر مقبول نہیں ہوسکے۔ بہر حال اندیور کی حیثیت استثنائی ہے۔
ان کے لکھے گئے مقبول گیت ذیل میں دیے جاتے ہیں:
چندن سا بدن، چنچل چتون، دھیرے سے ترا یہ مسکانا
مجھے دوش نہ دو اے جگ والو، ہوجاؤں اگر مَیں دیوانہ
(’’ارتباطِ حرف و معنی‘‘ از ’’عاصم ثقلینؔ‘‘، پبلشرز ’’فکشن ہاؤس، لاہور‘‘، سنہ اشاعت 2015ء، صفحہ نمبر 50 سے انتخاب)