ہم لوگ اخبار ’’آفاق‘‘ سے منسلک ہوگئے۔ ’’آفاق‘‘ اخبار میں انتظار حسین اور علی سفیان آفاقی اور میں پہلے ہی سے کام کر رہے تھے۔ اس اخبار کا دفتر مال روڈ پر اشفاق احمد کے رسالے ’’داستان گو‘‘ کے دفتر والی بلڈنگ میں تھا۔ یہ مارشل لا سے مارشل لا تک والے سید نور احمد کا اخبار تھا۔ ہمارے ساتھ ناصر کاظمی بھی اخبار کے عملے میں شامل ہوگیا۔ پہلے پہل میں بھی دن کی شفٹ میں تھا اور ناصر بھی دن ہی کی شفٹ میں تھا، جیسا کہ اس زمانے میں اخباروں میں ہوا کرتا تھا، ہمیں تنخواہ توڑ توڑ کر دی جاتی تھی۔ ایڈوانس لینے کی بھی ہمیں اجازت تھی۔ ہم کافی رقم ایڈوانس لے لیا کرتے تھے۔
ایک بار ایسے خزانچی صاحب آگئے جنہیں ایڈوانس دینے سے چِڑ تھی۔ ہم جب کبھی ان کے پاس ایڈوانس لینے جاتے، وہ طرح طرح کے بہانے بنا کر ہمیں مایوس کردیتے۔ ہم بھی بڑے کاریگر تھے۔ ایک بار میں نے دادا جان کی شدید علالت کا بہانہ بنا کر ایڈوانس لے لیا۔ دوسری بار ان کی وفات کا کہہ کر ایڈوانس وصول کیا۔ ناصر کاظمی نے بھی دو تین بار کچھ ایسا ہی کیا۔ ہم ایڈوانس لے کر آتے، تو کمرے میں آکر خوب ہنستے۔ مگر ایک بار پھر مجھ سے غلطی ہوگئی۔ اس لیے کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے۔ مَیں خزانچی کے پاس گیا، تو بڑی دردناک بلکہ الم ناک صورت بنا کر کہا کہ میرے دادا جان کا انتقال ہوگیا ہے۔ مجھے تنخواہ میں 50 روپے ایڈوانس چاہئیں۔ خزانچی نے میری طرف قہر آلود نظروں سے دیکھا اور دراز میں سے ایک کاغذ نکال کر میرے آگے رکھ دیا۔ یہ پچھلے مہینے کی میری ایڈوانس کی پرچی تھی جس میں، مَیں نے لکھا تھاکہ آج صبح میرے دادا جان کا انتقال ہوگیا ہے۔ اس لیے مجھے 30 روپے ایڈوانس دیے جائیں۔ خزانچی نے کہا: ’’ایک آدمی دو بار نہیں مرسکتا۔‘‘ مَیں شرم سار ہوکر وہاں سے بھاگ آیا۔
جب ناصر کاظمی آیا، تو مَیں نے اسے یہ قصہ سنایا۔ وہ ہنس ہنس کر دُہرا ہوگیا۔ کہنے لگا، ’’اے حمید! مَیں نے تمہیں پہلے ہی کہا تھا کہ کسی عزیز کو مارا مت کرو۔ بیمار بتایا کرو۔ کیوں کہ بیماری طول پکڑ سکتی ہے،مگر مرنے سے تو قصہ ختم ہوجاتا ہے۔‘‘
(اے حمید کی خاکوں کی کتاب ’’چاند چہرے‘‘، مطبوعہ ’’مکتبہ القریش‘‘، سنِ اشاعت 1995ء کے صفحہ 94، 95 سے انتخاب)