انگریزی میں جو صنف "Light Essay”سے موسوم ہے۔ اُردو ادب میں اس کے لیے انشائیہ مستعمل ہے۔
انگریزی سے پہلے فرانسیسی زبان میں مونتین نے 19 ویں صدی کے آخر میں اپنا پہلا انشائیہ لکھا۔ مونتین کی تقلید میں انگریزی انشا پرداز بیکن نے اسے انگریزی میں رائج کیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے انشائیہ دنیا کی ساری زبانوں میں لکھا جانے لگا۔
ادب میں کسی صنف کی آج تک کوئی حتمی تعریف نہیں ہوسکی۔ لہٰذا انشائیہ کی تعریف بھی ہر کسی نے اپنے اپنے انداز میں کی ہے۔
ڈاکٹر جانسن انشائیہ کو "A loose sally of the mind” یعنی ذہن کی آوارہ خرامی قرار دیتے ہیں۔
ہنسن کے نزدیک انشائیہ لکھنے والے کا شخصی روپ ہے یعنی جب کوئی ادیب ہم کلامی کے عمل سے گزر رہا ہوتا ہے، تو وہ حقیقت میں انشا تحریر کر رہا ہوتا ہے۔
اردو کے ممتاز نقاد اور انشائیہ نگار ڈاکٹر وزیر آغا اس کی تعریف ان الفاظ میں کرتے ہیں: ’’انشائیہ اس مضمون کا نام ہے جس میں انشائیہ نگار اسلوب کی تازہ کاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اشیا یا مظاہرے کے مخفی مفاہیم کو کچھ اس طرح گرفت میں لیتا ہے کہ انسانی شعور اپنے مدار سے ایک قدم باہر آکر ایک نئے مدار کو وجود میں لانے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔‘‘
(’’ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم‘‘ کی تالیف ’’اصنافِ اُردو‘‘ ، ناشر ’’بک کارنر‘‘، تاریخِ اشاعت 23 مارچ 2018ء، صفحہ نمبر 54 سے انتخاب)