ادب کی ایسی تعریف جس پر سب کو اتفاق ہو، ایک مشکل کام ہے۔
بعض دانش ور مثلاً میتھیو آرنلڈ (Mathew Arnold) ہر اُس علم کو جو کتاب کے ذریعہ ہم تک پہنچے، ادب قرار دیتے ہیں۔
والٹر پیٹر (Walter Peter) کا خیال ہے کہ ’’ادب، واقعات یا حقائق کو صرف پیش کر دینے کا نام نہیں بلکہ ادب کہلانے کے لیے اظہارِ بیان کا تنوع ضروری ہے۔‘‘
جب کہ کارڈینل نیومن (Cardinal Newman) کے الفاظ میں ’’انسانی افکار، خیالات اور احساسات کا زبان اور الفاظ کے ذریعے اظہار ’’ادب‘‘ کہلاتا ہے۔‘‘
ایک اور تعریف کے مطابق ’’ادب میں الفاظ کی ترتیب، افکار اور احساسات کا اظہار اس طرح کیا جاتا ہے کہ پڑھنے اور سننے والے میں مسرت کا احساس پیدا ہو‘‘، تاہم سادہ الفاظ میں ہم ادب کو آرٹ کی ایک شاخ اور فنِ لطیف بھی کہہ سکتے ہیں، جو نثر اور شاعری پر مشتمل ہوتا ہے۔
داستان، ناول، افسانہ وغیرہ نثر کی اصناف جب کہ غزل، رباعی، نظم، مرثیہ، قصیدہ وغیرہ شاعری کی اصناف ہیں۔
ادب کی تشکیل ادیب کرتا ہے۔ یہ حساس طبیعت انسان معاشرے کا گہرائی اور عمیق نظری سے مشاہدہ کرکے اس کی اچھائی اور برائی، کمی اور خوبی، کثرت اور قلت کو قلم کی روشنائی میں گھول کر، کاغذ پر ایک ایسے آئینے کی صورت میں سامنے رکھ دیتا ہے، جس میں معاشرہ اپنا چہرہ دیکھ سکتا ہے۔
ادیب ایسا انسان ہوتا ہے جس میں ادراک کی صلاحیت بھی ہوتی ہے اور اس کے اظہار کی قوت بھی۔ اس کے ادراک اور اظہار میں اتنی داخلی و خارجی وسعت اور تہ داری ہوتی ہے کہ ادب انفرادی و ذاتی ہوتے ہوئے بھی آفاقی ہوتا ہے۔ جتنا بڑا ادیب ہوگا، اس کے تجربے کا تنوع، اس کا شعور و ادراک اور اس کا اظہار اتنا ہی بڑا اور آفاقی ہوگا۔
(’’جہانگیر ورلڈ ٹائمز‘‘، ماہِ جنوری کے شمارہ کے صفحہ نمبر 86 سے انتخاب)