’’اسے پرواز کرنے دو‘‘کی کہانی اگر چہ درپردہ ملالہ یوسف زئی کی کہانی ہے، لیکن ضیاء الدین یوسف زئی کی یہ خود نوشت ایک متوسط گھرانے کے ہر پہلو کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ وہ کٹھن مراحل جو ایک نا خواندہ، تشدد پسند اور مشکوک انتہا پسند سماج میں تعلیم یافتہ، عورتوں کے حقوق کے علمبردار، روشن خیال، ترقی پسند انسان کو در پیش آسکتے ہیں۔ اس کا سامنا ضیاء الدین یوسف زئی جیسے حوصلہ مند اور نڈر انسان نے بھی کیا۔ اس لیے یہ ہر باپ کی کہانی ہے جو اپنی بیٹی کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنا چاہتا ہے۔ ہر شوہر کی کہانی ہے جو اپنی بیوی کو برابری کا حق دے کر اُسے بولنے اور اختلاف کا حق دینا چاہتا ہے۔ ہر اُس انسان کی کہانی ہے جو معاشرے میں انصاف چاہتا ہے، ہر اُس بندے کی داستان ہے جو اللہ کی زمین پر اللہ کی مخلوق کی عزت و احترام کا خواہش مند ہے، ہر ذی روح کی دلی خواہش ہے کہ اس کرۂ ارض کے چپے چپے پر امن و امان کا راج ہو۔
کتاب کے بارے میں شعیب سنز پبلشرز اینڈ بک سیلرز کے مالک، مصنف، محقق اور اس کتاب کے مترجم جناب فضل ربی راہیؔ صاحب اپنے دیباچے میں کچھ یوں فرماتے ہیں: ’’ضیاء الدین یوسف زئی کی اس خود نوشت میں مایوس اور حالات سے دبنے والے لوگوں کے لیے نئی اُمید اور نا مساعد حالات سے نبرد آزما ہونے کے لیے ایک نیا عزم، ولولہ، طاقت اور توانائی کا سبق پوشیدہ ہے۔ یہ کہانی پڑھ کر انسان میں آگے بڑھنے اور اپنے لیے معاشرے میں ایک بلند مقام حاصل کرنے کا نیا جوش اور جذبہ پیدا ہوتا ہے۔‘‘
دراصل اس کتاب کا اردو ترجمہ کرکے فضل ربی راہیؔ صاحب نے ایک بڑا علمی کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ اگر چہ ترجمہ کرنا ایک نہایت کٹھن اور نازک کام ہے۔ کیوں کہ ترجمہ کسی بھی صورت میں اصل عبارت کا نعم البدل نہیں ہوسکتا، لیکن راہی صاحب نے اپنی بھرپور کوشش کی ہے کہ یہ ترجمہ نہ لگے۔
ضیاء الدین یوسف زئی نے شانگلہ پار کے ابتدائی ایام سے لے کر برمنگھم تک درجہ بہ درجہ اپنی داستانِ حیات بہت دلچسپ انداز سے قلم بند کی ہے۔ بچپن کی شوخیوں سے لے کر جوانی کی ذمہ داریوں تک، پھر بحیثیت ایک شوہر اور باپ کے سرگرمیاں، دوستوں کے ساتھ تعلقات، اپنی سماجی بقا کے لیے جد و جہد، اولاد کے لیے تعلیمی راستوں کی نشان دہی غرض ہر رشتے کو نبھاتے ہوئے اور ہر مصیبت کا سامنا کرتے ہوئے ایک بھر پور زندگی کی مکمل عکاسی ہے۔ قدم قدم پر مشکلات کا مقابلہ کیا۔ ضیاء الدین یوسف زئی نے اپنی زندگی میں پیش آنے والے چھوٹے چھوٹے واقعات لکھ کر دراصل اس تعصب بھرے بے رحم سنگ دل معاشرے کو ننگا کیا ہے۔ ’’امیر لڑکے کلاس میں میرے والد کے پیشے کا مذاق اُڑاتے تھے۔ کیوں کہ وہ مسجد میں پیش امام تھے۔‘‘ یہ اظہر من الشمس ہے کہ پشتون اپنے زعم میں میاں، ملا، جولاہا، نائی، زرگر، ترکھان اور آہن گر کا مذاق آج بھی اُڑاتے ہیں۔ وہ نسلی تعصب کا بدترین مظاہرہ کرکے ان ہنر مند لوگوں کو اپنے سے کمتر سمجھتے ہیں۔ یہی تاثر پشتون قوم کا المیہ ہے۔ یوں اپنے آپ کو پشتون سمجھنے والے، معاشرے کے ایک بڑے گروہ کی ہمدردیاں کھودیتے ہیں۔
کتاب میں مینگورہ میں خوشحال سکول کی خوش گوار یادیں بھی ہیں، 2007ء کے بعد تلخ اور مشکل حالات بھی ہیں، پھر 2012ء کے اُس دلخراش اور دردناک حادثے کی تفصیلات بھی ہیں، جس نے پورے خاندان کو ایک مشکل صورتِ حال سے دوچار کردیا۔ خاندان کے ہر فرد کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ تھا۔ کیوں کہ ملالہ جیسی قابل اور معصوم لڑکی زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا تھی۔ ماں، باپ راتوں کو روتے تھے۔ وہ اچانک روشنیوں سے اندھیروں میں گم ہوکر رہ گئے تھے۔ ضیاء الدین یوسف زئی کو اپنی تمام دوڑ دھوپ اور تگ و دو ضائع ہوتی دکھائی دے رہی تھی۔ اُس کے ارمانوں کا خون ہورہا تھا۔ اس کے ارمانوں کا خون ہو رہا تھا۔ اس کی بیٹی خوبصورت، نڈراور قابل ملالہ بسترِ مرگ پر تھی۔ ضیاء الدین کا دل خون کے آنسو رو رہا تھا، لیکن اُسے خدا پہ بھروسا تھا کہ وہ اور اُس کی بیوی ہر وقت دست بہ دعا تھے، صرف وہ دو نہیں بلکہ لاکھوں، کروڑوں ہم درد، جوان، بوڑھے، بچے اللہ کے حضور دعاؤں کے طالب تھے کہ اللہ تعالیٰ ملالہ کو نئی زندگی سے نوازے۔ ضیاء الدین یوسف زئی کو بہ حیثیتِ ایک باپ اپنی بیٹی ملالہ پر فخر ہے، جیسے کہ وہ خود لکھتے ہیں کہ ’’مجھے فخر محسوس ہوتا ہے کہ ملالہ ہماری زمین پر قابلِ فخر انسانوں میں سے ایک ہے، جس نے اپنی زندگی دوسروں کے لیے وقف کررکھی ہے۔ مجھے ملالہ پر فخر ہے جو دنیا کو یہ سکھانے کی کوشش کرتی ہے کہ محبت محض اپنے لیے نہیں بلکہ دوسرے انسانوں کے لیے بھی ہوتی ہے۔ مَیں اس بات پر فخر محسوس کرتا ہوں کہ جواں سال ملالہ وہی بچی ہے جو کبھی ہمارے سیکنڈ ہینڈ جھولے میں پڑی رہتی تھی۔ مجھے بہت فخر ہے کہ ملالہ میری بیٹی ہے۔‘‘
قارئین! ’’اُسے پرواز کرنے دو!‘‘ میں ضیاء الدین یوسف زئی نے کمال فن سے ابتدا سے لے کر آخر تک ہر قسم کے رشتوں کے ساتھ نبھانے کے طور طریقے لکھے ہیں۔ والد صاحب کے ساتھ تعلق، ماں کے ساتھ جذباتی محبت کا رشتہ، بھائیوں، چچا زادوں کے ساتھ مناسب و موزوں رویہ، دوستوں کا احترام، بیٹی اور بیٹیوں کے ساتھ سلوک، بیوی کے ساتھ ہمدردی اور تعاون، مختصراً ان سارے رشتوں کے ساتھ نبھانا اور بھگتنا واقعی ضیاء الدین یوسف زئی جیسے صابر اور ملنسار انسان کا کام ہوسکتا ہے۔
برمنگھم میں خوشحال (ملالہ کا بھائی) نئے ماحول سے متاثر ہوکر پڑھائی سے انکاری ہوگیا۔ موبائل ویڈیو گیمز میں ہر وقت مصروف رہنے لگا۔ بڑے صبر آزما طریقہ سے کیسے بچوں کو واپس پڑھائی کی طرف راغب کیا گیا، کیسے تربیت اور پرورش سے انہیں رام کیا گیا؟ اسے کتاب کا ایک اور اہم حصہ گردانا جاسکتا ہے۔
قارئین! کتاب پڑھنے سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ کامیابی کے زینے چڑھنا کوئی آسان کام نہیں۔ اس کے لیے بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ خون کا ساگر پار کرکے اور کٹھن اور مشکل حالات کی پتلی رسی پر چل کر کہیں خوشیوں اور کامیابیوں کے گلشن سے لطف اندوز ہوا جاسکتا ہے۔
ملالہ یوسف زئی اور ضیاء الدین یوسف زئی کی مشکلات اور پھر مشکلات کے بعد کامیابی کی منزل تک رسائی اپنی جگہ مگر ایک المیہ یہ ہے کہ بعض نادان اور حسد کے مارے لوگ اس ساری حقیقی کہانی کو امریکہ اور ایجنسیوں کی سازش قرار دے رہے ہیں۔ دراصل یہ تاثر سراسر تعصب اور حسد پر مبنی ہے، کیوں کہ درپردہ ہر کوئی یہ چاہتا ہے کہ اُس کی بیٹی یابہن ملالہ بن جائے، بے نظیر بھٹو بن جائے، لیکن وہ اس حقیقت کو نظر انداز کرتے ہیں کہ بیٹی یا بہن کو سات پردوں میں رکھ کر گھر میں بٹھانے سے یہ مرتبے حاصل نہیں ہوسکتے۔ جناب ضیاء الدین یوسف زئی صاحب نے کتاب میں کتنی خوبصورتی سے اس تاثر کا ذکر کیا ہے، ملاحظہ کیجیے: ’’مَیں آج سارے والدین، بھائیوں، مردوں اور لڑکوں سے ایک ہی بات کہتا ہوں کہ دنیا آپ کی بیٹی، بہن کو آپ سے متعارف کرانے کے لیے آپ کے گھر کے اندر آپ کے پاس نہیں آئے گی کہ یہ جو ابھی بچی ہے، یہ ایک عظیم عورت ہے، آنے والے وقت کی ایک سائنس دان اور سیاست دان ہے، یا اگلے وقت کی مادام کیوری اور ملالہ ہے۔ یہ آپ پر منحصر ہے کہ اس کو آپ پہچانیں اور اس پر اعتماد کریں اور یقین کریں کہ ہاں، گہوارے میں پڑی یہ چھوٹی سی بچی بڑی ہوکر سب کچھ کرسکتی ہے۔ اگر آپ خود یہ نہیں کہتے کہ آپ کے بچے بہترین صلاحیتوں کے حامل ہیں اور وہ اپنے خواب پورا کرنے کے لیے آگے بڑھ سکتے ہیں، تو پھر کون کہے گا؟ اور ہمارے بچوں کو اس کی ضرورت ہے۔ یقین کریں، ان کو ایسا کہنے کی بے حد ضرورت ہے۔‘‘
ضیاء الدین یوسف زئی صاحب نے اپنی غربت اور مجبوریوں کی بات بغیر کسی لگی لپٹی کے تفصیل سے بیان کی ہے۔ سکول اور کالج میں تعلیم کے حصول میں مشکلات، دور دراز فلک بوس پہاڑوں کی چوٹیوں پر مسجد اور سکول میں غریب اور مسکین بچوں کو مفت پڑھانا خدمت خلق کا ایک حسین، انوکھا اور اونچا جذبہ ہے۔ یہ حوصلہ ہے جس سے ضیاء الدین یوسف زئی صاحب عالمِ شباب کے آغاز ہی سے مزین اور آراستہ تھے۔
اُس کی خود نوشت میں بناوٹ، مصنوعیت اور جھوٹ کا شائبہ تک نہیں۔ انہوں نے اپنی زبان کی لکنت (ہکلاہٹ) کو بہانہ بنایا، نہ چھپایا۔ سچائی لکھنا اور سچائی کا سامنا کرنا حوصلہ مند اور نڈر لوگوں کے اوصاف میں سے ہوتا ہے۔ ایک اچھی اور دلچسپ خود نوشت کا معیار ہی سچائی اور حقیقت ہے۔
ضیاء الدین یوسف زئی نے ایک والد کی حیثیت سے اپنی بیٹی کے لیے بہت کچھ کیا ہے۔ وہ ہر چٹان سے ٹکرایا ہے۔ آگ کے دریا کو عبور کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’جب بھی کسی نے مجھ سے پوچھا ہے کہ ملالہ اس مقام تک کیسے پہنچی ہے؟ اس کے لیے آپ نے کیا کیا ہے؟ تو مَیں اکثر یہ جواب دیتا ہوں کہ ’’مجھ سے یہ نہ پوچھو کہ میں نے کیا کیا ہے؟ بلکہ یہ پوچھو کہ مَیں نے کیا نہیں کیا ہے؟ ہاں، مَیں نے اس کے پروں کو نہیں کاٹا ہے۔‘‘
جی ہاں، معصوم کبوتریاں ابھی چھوٹی ہوتی ہیں جب ہم اُن کے پر کاٹنے کے لیے قینچیاں تیز کرتے ہیں اور پرواز سے قبل ہی انہیں پرواز کے قابل نہیں چھوڑتے، لیکن ضیاء الدین صاحب فرماتے ہیں کہ ’’مَیں نے اس کے پروں کو نہیں کاٹا، تو میرا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جب وہ چھوٹی تھی، تو میں نے وہ قینچیاں توڑ ڈالی تھیں جن کے ذریعے معاشرہ لڑکیوں کے پَر کاٹ ڈالتا تھا۔ مَیں اُسے آسمان کی بلندیوں میں پرواز کرتے ہوئے دیکھنا چاہتا تھا۔ اور دنیا نے دیکھ لیا کہ ملالہ نے آسمان کی بلندیوں کو چھو کر اپنا، خاندان کا اور ملک و قوم کا نام روشن کردیا۔
The Times (London) نے کتاب پر تبصرہ کرکے گویا دریا کو کوزے میں بند کردیا ہے: ’’اسے پرواز کرنے دو۔ نہ صرف ایک خود نوشت ہے بلکہ پدرانہ سوسائٹی کو ایک التجا اور گذارش ہے کہ وہ اپنی بیٹیوں کو آزادی کے ساتھ اپنی زندگیوں کا فیصلہ کرنے دے۔‘‘
ضیاء الدین یوسف زئی کم عمری ہی میں کسی اول ماڈل کو دیکھے بغیر فطری اور بنیادی طور پر اس تصویر پر یقین رکھتے تھے کہ لڑکا اور لڑکی مساوی حقوق کے حامل ہیں۔ اس بارے میں پڑھتے ہوئے کہ وہ آسانی کے ساتھ اپنے عقائد و افکار پر کیسے آگے بڑھتے گئے، یہ کہانی اُس کی قابل قدر جد و جہد اور روشن خیالی کی عکاس ہے اور اس کی غیر معمولی بیٹی ملالہ یوسف زئی کی کامیابیوں کا پس منظر بھی ہے۔
قارئین! یہ ایک حیران کن، دلچسپ اور ایک طرح سے عجیب و غریب داستان ہے، یہ خوبصورت کتاب یقینا پڑھنے کے قابل ہے۔ ہر دانشور، ہر استاد، ہر باپ، ہر بیٹی اور بیٹے کو پڑھنی چاہیے۔
مَیں شعیب سنز پبلشر کے مالک فضل ربی راہیؔ صاحب کا مشکور ہوں کہ انہوں نے اتنی خوبصورت کتاب مجھے تحفتاً عنایت کی۔ یہ اپنی معیاری کتب کی چھپائی کے لیے ایک خاص شہرت کا حامل ادارہ ہے۔ کتاب، شعیب سنز سوات مارکیٹ جی ٹی روڈ مینگورہ میں ہر وقت دستیاب ہے۔ مَیں آخر میں کتاب پر ملالہ یوسف زئی کے خوبصورت مگر جامع تبصرے کو کاپی کرکے اجازت چاہوں گا:
’’میرے والد شاید پوری دنیا کو اس بات پر قائل نہیں کرسکتے کہ عورت کے ساتھ احترام اور مساوات کے ساتھ برتاؤ کیا جائے، جو وہ آج بھی ہر روز کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن یہ حقیقت ہے کہ انہوں نے میری زندگی کو بہتر بنا دیا ہے۔ انہوں نے مجھے میرا مستقبل دیا ہے۔ انہوں نے مجھے میری آواز دی ہے اور انہوں نے مجھے پرواز کرنے دیا ہے۔
ابا!میں بھلا آپ کا شکریہ کیسے ادا کرسکتی ہوں؟‘‘
………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔