اردو مکتوب نگاری کے فن اور ارتقا کے مطالعے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اردو زبان میں مکتوب نگاری کا آغاز آج سے تقریباً 200 برس پہلے 19ویں صدی کے وسط میں ہوا۔
اردو مکتوب نگاری فارسی مکتوب کے زیرِاثر پروان چڑھی ہے۔ اردو خطوط میں زیادہ ترفارسی روایات اور تکلفات کا اظہارہوتا رہا ہے۔ کیوں کہ فارسی طویل عرصے تک دفتری زبان رہی ہے۔ انیسویں صدی کے وسط میں جب فارسی زبان کو زوال آیا اور اردونے اس کی جگہ لے لی، تو عام خط وکتابت انگریزی زبان کے علاوہ اردو میں کی جانے لگی۔
اس دور میں اردو مکتوب نگاری دو صورتوں میں آگے بڑھتی ہوئی نظر آتی ہے۔ اک صورت وہ تھی جس میں فارسی زبان کے رنگ و آہنگ کی پیروی کی جاتی تھی اور یہی زبان کے حسن و آراستگی کا معیار تھا۔ دوسری صورت جدید طرز کی تھی۔ ابتدا میں یہ طرز مقبول تھا۔ جدید مکتوب نگاری، انشاپردازی سے الگ ہو کر بے تکلف اور مکالمے سے قریب ترہوگئی۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت مراسلہ کو مکالمہ بنانے کا دعویٰ غالب کے علاوہ دیگر افراد بھی کر رہے تھے۔ آغاز سے ارتقائی دور میں قدم رکھنے کے بعد مکتوب نگاری میں عجیب عجیب تبدیلیاں ہوتی نظر آتی ہیں۔
اردو مکتوب نگاری کے ارتقا میں مرزا قتیلؔ،غلام غوث بے خبرؔ، رجب علی بیگ سرور اور مرزا غالبؔ کے نام لیے جا سکتے ہیں۔ مراسلے کومکالمہ بنانے کا وصف بے خبرؔ اور سرورؔ سے شروع ہوا اور غالبؔ نے اسے درجۂ کمال تک پہنچایا۔
رجب علی بیگ سرور کے خطوط میں القاب و آداب اور تمہید میں روایتی طرز کی خطوط نویسی کاانداز ملتا ہے۔ رنگین بیانی کا اہتمام بھی ملتا ہے اور الفاظ پُرشکوہ ہیں۔ سرورؔ کی کوشش رہی ہے کہ عبارت گنجلک نہ ہونے پائے، بلکہ زبان سلیس اور اسلوب سادہ ہے۔ اسلوب میں طنز و مِزاح کی شگفتگی بھی ملتی ہے۔ان کے خطوط میں اکثرمکالمے کا انداز بھی ملتا ہے۔ مثلاً ’’قبلہ، بندہ تسلیم بجا لاتا ہوں اور جو کام کرتا ہوں، اس کی داد پاتا ہوں، آپ کی پوسٹ ماسٹر تک رسائی ہے۔ مَیں نے ہر کاروں سے رسم بڑھائی ہے۔ گو ہم پلہ نہیں، کم ہوں مگر قدم بقدم ہوں۔‘‘
سرورؔ کے زمانے میں معنی سے زیارہ الفاظ کی پذیرائی ہوئی۔ انھوں نے جدید لفظوں کا انتخاب کیا۔ ان کے استعمال کردہ لفظوں میں بہت کم اب متروک ہیں۔ سرورؔ کو لفظ کی جدید شکلوں اور ان کے نادر استعمال پر قدرت حاصل تھی ۔ ان کی زبان لکھنؤ کی ادبی اور مجلسی اردو کا نمونہ پیش کرتی ہے۔خطوط کونصف ملاقات بنانے کاسہرا تنہا غالبؔ کے سر نہیں بلکہ وہ دور ہی ایسا تھا۔ مثال کے طور پروا جد علی شاہ نے کئی جگہ لکھا ہے کہ ’’اور مدام ارسال خطوط اور خیرخیریت مزاج محبت امتزاج سے دل غمگین اختر شا د کیا کہ المکتوب نصف الملاقات کہتے ہیں۔‘‘
یہ بات اپنی جگہ مسلم ہے کہ غالبؔ نے سادہ اور صاف ستھری نثر کے انداز کوخطوط میں جگہ دی۔ اس سے صحیح معنوں میں جدید مکتوب نگاری کے رہنما کہلانے کے حق دار ہیں۔ انھوں نے خطوط میں نئے قاعدے اور اصول وضع کیے۔ موضوعات و اسلوب کے اعتبار سے نئی جہتیں پیدا کیں۔ طرزِ بیاں میں نیا حسن پیدا کرنے کی کوشش کی۔
غالبؔ نے اپنے خطوط میں القاب و آداب ایجاد کرکے استعمال بھی کیے ہیں اور کہیں کہیں بغیر القاب و آداب کے بھی خط کی ابتدا کر دیتے ہیں، لیکن حالات اور موضوعات کی مناسبت اور شخصیت کے اعتبار سے اکثر القاب بدل جاتے ہیں۔ غالبؔ کے خطوط کی مقبولیت سے اردوخطوط نگاری کو ایک خاص ادبی رتبہ حاصل ہوا۔
دورِ سر سید سے اردو مکتوباتی ادب میں ایک نئے دور کا آغاز ہوتا ہے۔ سر سید اور ان کے معاصر کے تحریر کردہ خطوط میں نئے زمانے کے رجحان، انگریزی زبان و ادب کی ارتقائی منازل کا عکس صاف دکھائی دیتا ہے۔ اس دور کے مکتوب نگاروں کے خطوط ایک خاص طرز کی ترجمانی کرتے ہیں۔ سر سید اور ان کے رفقا کے خطوط کے مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔
جنگِ عظیم اول کے بعد ذہن و فکر نے جو نئے انقلابات قبول کیے، ان سے مکتوب نگاری بھی متاثر ہوئی۔ یہ دور 1936ء تک جاتا ہے۔ اس زمانے میں سر سید کے دور کے خلاف جذباتی رومانی ردعمل ہوا۔ اس کے بڑے علم بردار اقبالؔ اور ابو الکلام آزادؔ ہیں۔ مولانا ابو الکلام آزادؔ کے مکاتیب کے مجموعوں میں ’’غبارِ خاطر‘‘ کے خطوط کو بڑی شہرت حاصل ہوئی۔ اس دور میں سر سید کا رنگ بھی کہیں کہیں قائم رہا۔ اس رنگ کے سب سے بڑے نمائندہ ادیب عبدالحق اور احسن مارہروی ہیں۔
1934ء کے بعد مکتوب نگاری کے آداب و رسوم میں تبدیلی آئی۔ کیوں کہ اس وقت تک ملک میں حقیقت نگاری اور نفسیات کے مطالعے کا ذوق بیدار ہوچکا تھا۔ خود کو چھپانے کا انداز اس سے پہلے کے خطوط میں چلا تھا، وہ ترک ہو گیا تھا اور صاف گوئی کا میلان پیدا ہوا۔ اب تک مشاہیر کے خطوط کے جو مجموعے شائع ہوئے ہیں۔ ان سے ثابت ہوتا ہے کہ بیسویں صدی بڑی تبدیلیوں کی صدی رہی ہے۔ اسی زمانے میں مکاتیب کے جو چار مجموعے شائع ہوئے وہ اردو مکتوب نگاری کے ارتقا میں اہم درجہ رکھتے ہیں۔ ان کے نام اس طرح ہیں:
٭ ’’نقوشِ زِنداں‘‘ از سجاد ظہیر
٭ زیرِ لب و حرفِ آشنا
٭ ’’عزیزم کے نام‘‘ از ڈاکٹر محمد دین تاثیر
٭ ’’گویا دبستان کھل گیا‘‘ از چودھری محمد علی
قارئین، یوں مکتوب نگاری کا یہ سلسلہ ترقی کی منازل طے کر تا ہوا تا حال جاری و ساری ہے۔
……………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔