شکیب جلالی کی حیات و کائنات کے حوالے سے جو سب سے بڑا المیہ ہے، وہ ان کی موت ہے، جو خودکشی کی صورت میں واقع ہوتی ہے۔ اس بات پر سب محققین، ناقدین اور ادبا متفق ہیں کہ شکیب جلالی ٹرین کی زد میں آکر اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے اور یہ عمل انہوں نے خود کیا، یعنی خودکشی کا یہ عمل ان کا اپنا ہے، جس کے پیچھے ان کے نفسیاتی عوامل کار فرما ہیں۔ کیوں کہ اس سے قبل نفسیاتی مریض بن کر ہسپتال میں بھی داخل ہوچکے تھے، جہاں سے وہ فارغ کردیے گئے تھے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اُن کے مذکورہ نفسیاتی عوامل میں اُن کے والد نے اُن کی والدہ کو ٹرین کے آگے دھکیلا تھا، جس سے اُن کی والدہ کی موت واقع ہوئی تھی۔ اس حوالے سے شہزاد احمد کا کہنا ہے: ’’شکیب کے ساتھ جو واقعہ پیش آیا، وہ بھی ایسے ہی واقعے کا اعادہ تھا جو پہلے سے وقوع پذیر ہوچکا تھا۔ ان کی والدہ بھی انہی حالات میں موت سے ہم آغوش ہوئی تھیں۔ لوگ یہاں تک کہتے ہیں کہ شکیب کی ٹانگیں بھی وہیں سے کٹیں جہاں سے اس کی والدہ کی کٹی تھیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ خاندانی روایت نے شکیب کی جان لے لی ہو۔ ان واقعات میں فرق محض اس قدر ہے کہ والدہ کو تو شکیب کے والد نے دھکادیا تھا، مگر شکیب نے خودکشی کی، یعنی اپنے آپ کو ٹرین کے نیچے دھکا دے دیا۔ چناں چہ شکیب نے بیک وقت دو کردار ادا کیے مرنے والے کا کردار اور مارنے والا کا کردار۔‘‘
اس سے یہ امر واضح ہوتا ہے کہ شکیب نے اپنی والدہ کا انتقام اپنے آپ سے لے لیا۔ کیوں کہ وہ خود سے انتقام لے سکتا تھا، اپنے والد سے نہیں۔لیکن بچپن میں ماں کی مامتا سے محرومی نے اس کی نفسیات پر کافی اثرات مرتب کردیے۔ کیوں کہ ان کی والدہ کے انتقال کے وقت ان کی عمر نو دس سال تھی۔
اس حوالے سے ڈاکٹر صفیہ عباد رقم طراز ہیں: ’’جب والدہ کا انتقال ہوا، تو شکیب کی عمر تقریباً نو برس تھی۔ انہوں نے حادثہ اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ بچپن کی عمر، نا پختہ ذہن اور آنکھوں کے سامنے یہ خونی ڈراما، شکیب رفتہ رفتہ نفسیاتی مسائل کا شکار ہوتے چلے گئے۔ ان کے لا شعور میں تڑپتی مامتا کی جدائی اور اس کا ناقابل برداشت دکھ ہمیشہ کے لیے دفن ہوگیا۔ کچھ خارجی زندگی کے مسائل اور کچھ نفسیاتی امراض 12 نومبر 1966ء کو 32سال کی عمر میں ریل گاڑی کے آگے آکر خودکشی کرلی اور سرگودھا میں دفن ہوئے۔‘‘
ڈاکٹر موصوفہ شکیب جلالی کی خودکشی کے حوالے سے مزید لکھتی ہیں: ’’شکیب جلالی کا پہلا اور بنیادی محرک ایک نفسیاتی حوالہ ہے۔ اس نفسیاتی حوالے نے ان کی شخصیت پر شدت کے ساتھ اثرات ڈالے۔ حادثے کی نوعیت کچھ اس طرح سے ہے کہ شکیب جب نو دس برس کے تھے، تو ان کی آنکھوں کے سامنے ان کے والد نے شکیب کی والدہ کو ٹرین کے سامنے دھکا دیا جس سے ان کی والدہ کی موت واقع ہوگئی۔ یہ حادثہ بریلی ریلوے اسٹیشن پر وقوع پذیر ہوا۔‘‘
والد کے ہاتھوں شکیب جلالی کی والدہ کی موت شکیب جلالی کی شخصیت اور زندگی پر مرتب ہونے والے اثرات کا ذکر ڈاکٹر صفیہ عباد نے کچھ یوں کیا ہے: ’’ کمسن شکیب نے گھر کے آنگن میں عزیز از جان ہستی یعنی مامتا کی دلدوز موت کا وہ منظر دیکھا جس نے زندگی بھر کے لیے انہیں حیرت کدوں کا باسی بنا دیا۔ کئی سوالات اندر ہی اندر جنم لیتے تھے، اور جواب کوئی نہ تھا۔ اس واقعے کی بدولت شکیب کی ذات میں کئی دنیاؤں نے جنم لیا۔ یہ دنیائیں انتقام، مامتا سے محرومی کے کرب، لہو کے چھینٹوں سے لبریز منظر، اپنی بے بسی اور بے اختیاری کا شدید احساس، تحفظِ ذات کا سوال اور ایسے کئی دوسرے عوامل سے عبارت تھیں۔ ان دنیاؤں کے عنوانات میں فکر کا تنوع تھا۔ درد والم میں جلتے بجھتے لمحے اب شکیب جلالی کی کل کائنات تھے۔
درد کا دیپ جلتا رہا، دِل کا سونا پگھلتا رہا
ایک ڈوبے ہوئے چاند نے رات بھر خون رُلایا مجھے
خون اور لہو کے چھینٹوں کا تعلق بلاشبہ ان کی والدہ کی حادثاتی موت سے براہِ راست دکھائی دیتا ہے۔
فصیل جسم پہ تازہ لہو کے چھینٹے ہیں
حدودِ وقت سے آگے نکل گیا ہے کوئی
اس حوالے سے ڈاکٹر موصوفہ مزید لکھتی ہیں: ’’اگرچہ شکیب کے والد شکیب کی خودکشی کے وقت وفات پاچکے تھے، لیکن لاشعوری طور پر شکیب اپنے والد کو وہ صدمہ اور اذیت پہنچانا چاہتے تھے، جو شکیب نے اس ضمن میں خود برداشت کی، وہ اپنے آپ سے بھی انتقام لینا چاہتے تھے کہ بہ حیثیت بیٹا وہ اس خونی ڈرامے سے اپنے والد کو کیوں نہ روک پائے، اپنی والدہ کو کیوں کر نہ بچاسکے۔ یہ تمام سوالات و جوابات، بے اختیاری، بے بسی اور تکلیف دِہ احساسات ان کے لاشعور کا کربناک حصہ بن گئے۔ یہاں خود سے انتقام کی کئی صورتیں نظر آتی ہیں۔ اپنے حوصلے کو آزمانا، اپنی آزمائش سے آپ ہی گذرنا بھی موت کی کیفیت کی تجرباتی سطح پر محسوس کرنا اور کبھی زندگی کی آہٹ کو موت کی دستک میں ضم کردینا۔ گویا موت کے کئی رنگ اس انتقامی صورت سے وابستہ نظر آتے ہیں۔ یہاں موت کی جانب شکیب جلالی کی پیش قدمی واضح طور پر محسوس کی جاسکتی ہے۔
…………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔