گلزارِ ادب کا ایک پھول ضلع سوات کے پُربہار علاقہ فتح پور میں مہکا، جس نے گلستانِ ادب میں بہت جلد اپنا ایک الگ مقام بنا لیا۔ جی ہاں، بات ہو رہی ہے استادِ محترم احسان یوسف زئی کی جو بہ یک وقت شاعر، ادیب، افسانہ نگار، نقاد اور محقق ہونے کے ساتھ ساتھ معلم بھی ہیں، جن سے نوجوان نسل فیض یاب ہو رہی ہے۔
دراز قد، اکہرا بدن، سانولی رنگت، پشتو کے مشہور فلمی ہیرو بدرِ منیر کی طرح لمبے بال جو کانوں کی لو کو چھپاتے ہیں۔ خش خشی کالی داڑھی، مناسب مونچھ، مخروطی اُنگلیاں، مہین مسکراہٹ، کانوں میں رس گھولتی آواز، نرم لہجہ، کان بہت چھوٹے نہ بڑے، روشن آنکھیں، ان تمام کا مجموعہ ہیں احسان یوسف زئی۔
آپ کا اصل نام احسان اللہ جب کہ یوسف زئی ایک طرح سے تخلص کرتے ہیں۔ ادبی حلقوں میں اسی نام (احسان اللہ یوسف زئی) سے جانے جاتے ہیں۔ موصوف 1991ء کو ضلع سوات کے حسین علاقہ فتح پور میں فضل ربی کے گھر میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کے ہائیر سیکنڈری سکول سے حاصل کی۔ وہی سے میٹرک کیا جب کہ ایف اے کا امتحان گورنمنٹ افضل خان لالا پوسٹ گریجویٹ کالج مٹہ سے پاس کیا۔ پھر ملاکنڈ یونیورسٹی سے بی اے، یونیورسٹی آف سوات سے پشتو زبان و ادب میں ماسٹر کی ڈگری لی اور پشتو اکیڈمی پشاور سے ایم فل کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد وہاں سے پروفیسر ڈاکٹر شیر زمان سیماب اور ڈائریکٹر پشتو اکیڈمی پشاور پروفیسر ڈاکٹر نصراللہ جان وزیر صاحب کی زیر نگرانی اب پشتو ادبیات میں پی ایچ ڈی میں مصروف ہیں۔
ادب سے کس دور میں جڑے؟ یہ تو راقم کو معلوم نہیں، تاہم دستیاب معلومات کے مطابق پانچویں جماعت میں پڑھتے تھے کہ شعر و شاعری سے رشتہ جوڑ بیٹھے اور اپنی شاعری کا باقاعدہ آغاز گورنمنٹ ہائیر سیکنڈری سکول فتح پور کے سالانہ مجلہ ’’تلاپنڑ‘‘ میں سال 2006ء کو نظم شائع کرنے سے کیا۔
آپ نظم و نثر دونوں میں طبع آزمائی کرتے ہیں، لیکن اصل میں شعبۂ تحقیق سے وابستہ ہیں۔ پشاور اکیڈمی کے سال 2019ء میں جو ششماہی پراجیکٹ اختتام تک پہنچام اُس میں سوات، بونیر اور شانگلہ کے لہجوں پر آپ نے تحقیق کی ہے، جو طباعت کے لیے تیار ہے۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن اسلام آباد سے منظور شدہ مختلف ریسرچ رسائل میں تحقیقی مقالے بھی لکھے ہیں، جو شائع ہوچکے ہیں۔ ان میں یونیورسٹی آف پشاور اور بلوچستان یونیورسٹی کے تحقیقی مجلے قابلِ ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ متعدد افسانے بھی لکھے ہیں، جو مختلف اوقات میں مختلف جرائد و رسائل میں شائع ہوچکے ہیں۔
احسان یوسف زئی نے شاعری میں غزل کو اپنی پسندیدہ صنف ٹھہرایا ہے، اور اسی وجہ سے غزل ہی لکھتے ہیں۔ موصوف اب تک درجنوں غزلیں لکھ چکے ہیں، لیکن تاحال کوئی کتاب شائع نہیں کی۔ بے شک ندیم احمد قاسمی اردو زبان و ادب کے نابغہ روزگار اور ہمہ جہت شاعر و ادیب ہیں، اور اسی وجہ سے اُنہوں نے پوری زندگی اردو کے لیے وقف کیے رکھی۔ احسان صاحب مجھے اُن کے نقش قدم پر چلتا ہوا مسافر معلوم ہوتے ہیں۔ احسان صاحب پشتو زبان و ادب کی خدمت کے ساتھ ساتھ غزل کو نئے رنگ میں پیش کرنے کی کوشش میں لگے ہیں۔
احسان یوسف زئی کے بارے میں سوات کے نامی گرامی اور بزرگ شاعر محمد حنیف قیسؔ صاحب یوں فرماتے ہیں کہ ’’احسان یوسف زئی کو پہلی ملاقات میں سمجھ بیٹھا تھا کہ یہ صاحب ایک نہ ایک دن پشتو ادب کے اُفق پر دمکتے ستارے کی مانند ضرور چمکے گا۔ موصوف کی ادبی کوشش اور علمی سطح جس قدر بلند ہے، اس سے کئی زیادہ اُس کی شرافت، سادگی اور ملنساری اعلیٰ درجے کی ہے۔ اپنی ذاتی خوبی اور علمی جستجو کی وجہ سے اسے آج ایک منجھے ہوئے نقاد کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ امید ہے کہ یہ درویش صفت انسان مستقبل میں پشتو زبان و ادب اور پشتون قوم کی خدمت کرے گا۔‘‘
احسان یوسف زئی کی علمی و ادبی وقعت کے بارے میں شعبۂ پشتو جہانزیب کالج کے چیئرمین پروفیسر عطاء الرحمان عطاؔ کچھ یوں لکھتے ہیں کہ ’’احسان یوسف زئی دورِ جدید کے اُبھرتے ہوئے شاعر، افسانہ نگار، نقاد اور محقق ہیں۔ اُن کی شاعری اپنی مٹی کی سوندھی خوشبو سے معطر اور اپنی قوم کی محبت سے معمور ہے۔ افسانوں میں موضوعاتی تنوع رکھتے ہیں۔ اسی طرح موصوف تنقید و تحقیق میں معیار کے قائل ہیں، جو بھی لکھتے ہیں، کھلے دل سے لکھتے ہیں۔ آپ پورے خیبر پختونخوا اور بالخصوص سوات میں پشتو زبان و ادب کے فروغ کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہتے ہیں۔ آپ ایک درویش صفت انسان ہیں، اور اپنی محنت کے بدلے صلے کی تمنا رکھتے ہیں اور نہ ستائش کی پروا ہی کرتے ہیں۔‘‘
احسان صاحب میں انتہا کی حد تک عاجزی ہے۔ کہیں بھی اپنی ذات کو نمایاں کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ کہیں بھی اُنہوں نے احساسِ برتری کا مظاہرہ نہیں کیا۔ باوجود یہ کہ ایک اعلیٰ نقاد، محقق اور ادب کے ایک کامل استاد ہیں، لیکن آج بھی خود کو زبان و ادب کا ایک ادنیٰ طالب علم سمجھتے ہیں۔ جس کی مثال گورنمنٹ افضل خان لالا کالج مٹہ شعبۂ پولی ٹیکل سائنس کے لیکچرار نجیب اللہ نجیب کے تاثرات میں کچھ یوں ملتی ہے: ’’میرے لیے احسان صاحب کے بارے میں لکھنا بہت مشکل ہے۔ کیوں کہ اُن کی شخصیت کے لیے الفاظ کا چناؤ کرنا اور پھر انہیں استعمال کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔‘‘
قارئین، مَیں پہلی بار احسان صاحب کے ساتھ جہانزیب کالج میں منعقدہ ایک تنقیدی میٹنگ میں ملا، اور وہاں سے ہمارا تعلق ادب اور پشتو زبان کی بنا پر آج تک قائم ہے۔ احسان صاحب کی شخصیت سے چنداں انکار نہیں کیا جاسکتا۔ کیوں کہ آپ بہت اچھے اور پیارے انسان ہیں۔ ہر شخص آپ کی تعریف کرتا نظر آتا ہے ، چاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا۔ آپ سے ملتے وقت کبھی یہ احساس نہیں ہوتا کہ احسان صاحب اتنے بڑے شاعر، ادیب، دانشور اور ایک بڑے ادارے میں معلم ہیں۔ مجھے آپ کی شخصیت میں ایک بہت بڑا اُستاد دکھائی دیتا ہے۔ کیوں کہ مَیں نے ہمیشہ آپ کے دِل میں یہ تڑپ محسوس کی ہے کہ مَیں کسی سے کچھ نہ کچھ سیکھ لوں، اور مَیں نے یہ بات کم اساتذہ میں پائی ہے۔ مختصراً یہ کہ احسان صاحب جیسی ذی علم شخصیت بننے کے لیے مجھ سمیت ڈھیر سارے طفلِ مکتب تمنا ہی کریں گے۔‘‘
گہرے تنقیدی شعور اور عمیق مطالعے کی وجہ سے آپ متعدد مصنفین اور شعرا کی کتب پر علمی مقالے لکھ چکے ہیں، جن میں سفید ریش اور خوش کلام شاعر ابراہیم خان شبنمؔ، بابائے قطعہ عبدالرحیم روغانےؔ، پروفیسر ڈاکٹر شیر زمان سیمابؔ اور پروفیسر ڈاکٹر سعید احمد سعیدؔ شامل ہیں۔ جن کے فن، فکر اور شخصیت کو اپنی علمی ترازو سے تول کر ان کا معیار مقرر کرتے ہیں۔ تنقید ہی سے متعلق ان کے بارے میں معروف کالم نگار ساجد علی خان ابو تلتاند کچھ یوں رقم طراز ہیں کہ ’’کسی ادب پارے کی علمی یا فنی قدر متعین کرنا ایک ماہر نقاد کا کام ہے۔ بحیثیتِ ایک تنقید نگار احسان یوسف زئی صاحب ادبی فن پاروں کا سقم نکالنے اور ان کی الجھی ہوئی گتھیاں سلجھانے کے ماہر ہیں۔ تنقید میں عطاء اللہ جان صاحب کے بعد جس شخص نے مجھے متاثر کیا، وہ احسان یوسف زئی ہی ہیں۔ خود شاعر ہیں، اس لیے شاعری کے اسرار و رموز خوب جانتے ہیں۔ تحقیق کے شیدائی، عمیق مطالعے کے عادی اور تنقیدی شعور کے مالک احسان یوسف زئی کو پشاور کے سفر میں قریب سے دیکھنے کا موقع ملا، جس سے میں اس نتیجے پر پہنچا کہ ایک مخلص، قدردان، انسان دوست اور وسیع النظر شخص کی خوبیاں ایک ساتھ جس شخص میں پائی جاتی ہیں، وہ احسان یوسف زئی ہی ہیں۔‘‘
راقم الحروف کے لیے یہ بات کسی اعزاز سے کم نہیں کہ مَیں احسان یوسف زئی صاحب کا براہِ راست شاگرد ہوں۔ مجھے موصوف سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا ہے اور اللہ کرے کہ یہ سلسلہ تادم آخر جاری و ساری رہے۔
قارئین! بہت کچھ لکھنے کو جی چاہتا ہے، لیکن وقت اور موقع کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے تصدیق اقبال بابو کے الفاظ مستعار لینا چاہوں گا کہ ’’کالم کے مختصر سے دامن میں بندہ کون کون سے فکری اور فنی پہلوؤں کو چھیڑے۔ اس لیے اسی پہ اکتفا کرتے ہوئے اتنا ہی کہوں گا کہ ’’ہمیں تم پہ ناز ہے!‘‘
……………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔