جو احمق پوری بات سن کر بھی کچھ نہیں سمجھتا، اس کے لیے یہ کہاوت کہی جاتی ہے۔ اس کہاوت کے تعلق سے ایک حکایت بیان کی جاتی ہے، جو اس طرح ہے:
’’ایک بار کسی جگہ رامائن کی کتھا ہو رہی تھی۔ سننے والوں میں ایک اہیر بھی تھا۔ جب پوری کتھا ختم ہوگئی، تو کتھا سننے والے باری باری کتھا کہنے والے پنڈت سے کتھا کے متعلق سوالات کرنے لگے۔ پنڈت جی سوالات کے جواب دے کر انہیں مطمئن کر رہے تھے۔ اہیر نے سوچا وہ کیوں کسی سے پیچھے رہے۔ اس نے بھی اُٹھ کر پوچھا، پنڈت جی، وہ جو سیتا ہے، وہ کس کا باپ ہے؟ یہ سن کر سبھی لوگ ہنسنے لگے۔ اس احمق نے رامائن کی کتھا تو سنی تھی، مگر کچھ سمجھنا تو دور کی بات ہے، وہ یہ بھی نہ سمجھ سکا تھا کہ سیتا کسی عورت کا نام تھا، یا کسی مرد کا۔ اسی وقت سے یہ کہاوت وجود میں آگئی کہ ’’رامائن ساری ہوگئی، سیتا کس کا باپ؟‘‘
(ڈاکٹر شریف احمد قریشی کی تصنیف ’’کہاوتیں اور ان کا حکایتی و تلمیحی پس منظر‘‘ مطبوعہ ’’دار النور، لاہور‘‘ اشاعت 2012ء، صفحہ 180 سے انتخاب)