مولوی صاحب بڑے فخر سے اپنے بچپن کے مصائب بیان کرتے تھے۔ جس مسجد میں ٹھہرے تھے، اس کا ملا بڑا بدمزاج اور بے رحم تھا۔ کڑکڑاتے جاڑوں میں ایک ٹاٹ کی صف میں یہ لپٹ جاتے اور ایک میں ان کے بھائی۔ ساتھ آٹھ سال کے بچے کی بساط ہی کیا؟ علی الصباح اگر آنکھ نہ کھلتی، تو مسجد کا ملا ایک لات رسید کرتا اور یہ لڑھکتے چلے جاتے اور صف بھی بچھ جاتی۔
اُس زمانے کے طالب علموں کی طرح انہیں بھی محلے کے گھروں سے روٹی مانگ کر لانی پڑتی تھی۔ دن اور گھر بندھے ہوئے تھے۔ انہی گھروں میں سے ایک گھر مولوی عبدالقادر صاحب کا بھی تھا۔ روٹی کے سلسلے میں جب ان کے ہاں آنا جانا ہوگیا، تو نذیر احمد سے اوپر کے کام بھی لیے جانے لگے۔ مثلاً بازار سے سودا سلف لانا، مسالہ پیسنا، لڑکی کو بہلانا، لڑکی بڑی ضدن تھی۔ ان کا کولہا توڑتی، اور انہیں مارتی پیٹتی رہتی۔ ایک دفعہ مسالہ پیستے میں مرچوں کا بھرا ہوا ڈبہ چھین کر ان کے ہاتھ کچل ڈالے۔ قدرت کی ستم ظریفی دیکھیے کہ یہی لڑکی آگے چل کر مولانا کی بیوی بنی۔
(انتخاب از ’’شاہد احمد دہلوی کے شاہکار خاکے ‘‘، مرتبہ ’’حکیم اعجاز حسین چانڈیو‘‘، ناشر گگن شاہد، امر شاہد،بُک کارنر، سنہ اشاعت، 2017ء، صفحہ نمبر 14 سے انتخاب)