یہ ہے اِک جبر اتفاق نہیں
جونؔ ہونا کوئی مذاق نہیں
ڈاکٹر نیہا اقبال کی پی ایچ ڈی مقالے پر مشتمل کتاب ’’جون ایلیا: حیات اور شاعری‘‘ پہلی بار نظروں سے گزری اور نظروں کو ایسی بھائی کہ فوراً ہی پڑھنا شروع کیا، اور دو ہی ابواب پڑھ لینے کے بعد اس کے متعلق رائے زنی کرنے کو جی چاہا، تو اپنے دوست کی اجازت سے اس کو پورے انہماک کے ساتھ پڑھ لیا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ شاید یہ جون ایلیا کی فن و فکر، شاعری اور شخصیت پر پہلی کتاب ہے۔ اگرچہ بہ قول ڈاکٹر نیہا اقبال، جونؔ ایلیا کی حیات اور خدمات پر کوئی 125 مضامین لکھے گئے ہیں۔
یہ کتاب اپنے موضوع کے لحاظ سے یقینا ایک سعیِ حاصل ہے اور بھرپور عملی کاوش ہے۔ نیز موصوفہ نے مذکورہ مضمون کا کماحقہ حق ادا کیا ہے۔
نیہا اقبال نے کتاب کو پانچ ابواب میں تقسیم کیا ہے۔ پہلے باب میں جونؔ ایلیا کی زندگی پر بھرپور بحث کی ہے جس میں خاندانی پس منظر کے عنوان کے تحت جونؔ ایلیا کے ابا و اجداد، والدین، خاندانی اعزہ اور مشغلہ و پیشہ کے بارے میں سیر حاصل گفتگو کی ہے کہ جونؔ ایلیا امروہہ کے ایک سادات خاندان سے تعلق رکھتے تھے جو اپنی علمی و ادبی حیثیت اور شان رکھتا ہے، جس کے اکثر افراد ادب اور شعر و شاعری کا گہرا اور بڑا شغف رکھتے تھے۔ ایسے مثالی خاندان میں جونؔ ایلیا کی پرورش ہوتی ہے۔ وہ عالمِ دین ہونے کے ساتھ ساتھ ادیب، شاعر اور فلسفی بھی تھے اور انہیں کئی زبانوں پر دسترس بھی حاصل تھی۔ ان کی والدہ بھی امروہہ کی ایک معزز خاتون تھیں۔
خاندانی اعزہ کے حوالے سے موصوفہ نے مشہورِ زمانہ شاعر و ادیب ’’رئیس امروہوی‘‘ کا حوالہ دیا ہے۔ رئیس امروہوی کے ایک شعر کے بارے میں جوش ملیح آبادی نے یہ کہا تھا کہ میں اس شعر کے بدلے میں اپنا پورا کلام دے سکتا ہوں۔ اس طرح دوسرے بھائیوں کی قابلیت اور بہن کا تذکرہ بھی موجود ہے۔
جونؔ ایلیا ایک زمیندار اور جاگیردار خاندان سے تعلق رکھتے تھے لیکن تین چار پشتوں سے شاعری کا ذوق رکھنے کے باعث سب کچھ ختم ہوگیا اور معاشی بد حالی کا سامنا کرنا پڑا۔
سوانحی حالات کے حوالے سے موصوفہ نے لکھا ہے کہ جون ایلیا 14 دسمبر 1931ء کو امروہہ میں پیدا ہوئے۔ ان کا پورا نام سید حسین جون اصغر رکھا گیا اور والد کے تخلص کی نسبت سے جونؔ ایلیا کہلائے۔ یہاں موصوفہ نے ایک اہم بات واضح کردی ہے کہ ’’جون‘‘ امام حسین ؓ کا غلام تھا اور ’’ایلیا‘‘ حضرت علی ؓ کو کہتے ہیں، جس کی وجہ سے لوگوں کو جونؔ ایلیا کے نام کی وضاحت ہوتی ہے اور مختلف قسم کے بے ہودہ خیالات ان کے ذہنوں سے نکل جاتے ہیں۔ یوں جونؔ ایلیا کا مسلمان ہونا ثابت ہوجاتا ہے۔ جونؔ ایلیا نے فارسی میں کامل، عربی میں مولوی اور عالم کا امتحان پاس کیا تھا۔ فارسی، اُردو اور فلسفے میں ایم اے کیا اور بھی بہت سے امتحان پاس کیے۔ پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھنے کا ارادہ تھا مگر اپنی لااُبالی طبیعت کی بدولت چھوڑ دیا۔ بہت سی زبانوں پر دسترس تھی، جیسے عربی، فارسی، اُردو، ہندی، انگریزی، پہلوی اور عبرانی۔ پھر دوستوں کا ذکر ہے۔ اس کے بعد ازدواجی زندگی کا بھر پور حوالہ ہے کہ زاہدہ حنا سے ان کی شادی ہوئی لیکن بہ قولِ جونؔ ایلیا دو اناؤں کی وجہ سے علیحدگی ہوگئی۔بقولِ شاعر
وفا کی لاج پر اس کو منالیتے، تو اچھا تھا
انا کی جنگ میں اکثر جدائی جیت جاتی ہے
ان کے تینوں بچوں کا ذکر بھی ہے۔ ان کے تینوں بھائی تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان آئے۔ والدین کی وفات اور بہن کی شادی کی وجہ سے انہیں بھائیوں نے بہت منت سماجت کے بعد پاکستان بلوایا۔ وہ نہ چاہتے ہوئے پاکستان آئے لیکن اس ہجرت کے اثرات ان کی شخصیت اور شاعری پر تاآخر قائم رہے۔
پھر شخصیت کو واضح کیا گیا ہے اور طبیعت و مزاج کے حوالے سے موصوفہ لکھتی ہے کہ وہ لااُبالی طبیعت کے مالک اور بچپن سے عاشق مزاج تھے اور ہر شخص سے ناز اُٹھواتے تھے۔ وہ خود کو ہمیشہ تنہا محسوس کرتے تھے، کہتے ہیں:
جونؔ ہم زندگی کی راہوں میں
اپنی تنہا روی کے مارے ہیں
دوسرے باب میں جونؔ ایلیا کی شاعری کے ارتقا کے حوالے سے دو حصے بنائے ہیں۔ ابتدائی دور ہندوستان میں، جس میں بیسوی صدی کے سماجی، معاشی اور سیاسی حالات کے تناظر میں شعری ماحول کا جائزہ لیتے ہوئے جونؔ ایلیا کی شاعری پر تفصیلاً گفتگو کی گئی ہے اور مختلف حوالہ جات بھی دیے گئے ہیں۔ اُس وقت کے منظر نامے کو مدِنظر رکھ کر نظم اور غزل کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ اس دوران میں تقسیمِ ہند نے جو اثرات سماج اور اہلِ سماج پر مرتب کیے، ان کی زد میں جونؔ ایلیا بھی آگئے اور انہیں اپنے آبائی وطن سے ہجرت کرنی پڑی۔ پھر ہجرت کے بعد ان کی شاعری کا ارتقا سامنے رکھا گیا ہے۔ تقسیم کے تناظر میں دوسرے شعرا اور جونؔ ایلیا کا موازنہ بھی پیش کیا گیا ہے۔ بہ قول جنید اکرم فاروقی، ’’اس کتاب میں تیسرا اور چوتھا باب نہایت اہم ہیں۔‘‘ کیوں کہ ان دو ابواب میں جون ایلیا کی شاعری، ان کے معاصرین شعرا، غزل و نظم کے میدان میں نئے تجربے اور جونؔ ایلیا کا انحراف، ان کے پسندیدہ موضوعات، شعری محاسن کا تذکرہ ہے اور یہی دو ابواب اس کتاب کے مرکزی نکات ہیں۔ تیسرے باب میں دو عنوان بنائے گئے ہیں۔ غزل اور نظم۔ غزل کے حوالے سے پہلے اُردو غزل کی روایت اور جونؔ ایلیا کے انحرافات کا ذکر ہے، پھر معاصرین شعرا کے مقابل جونؔ ایلیا کے امتیازات بیان کیے گئے ہیں۔ موصوفہ لکھتی ہے کہ غزل کے حوالے سے یہ حقیقت ہے کہ اس کا کوئی خاص موضوع نہیں ہے جس کا بنیادی اور مرکزی موضوع ’’عشق‘‘ ہے۔ اس لیے اُس وقت غزل میں محبوب کے ناز و ادا کا تذکرہ ملتا ہے۔ تصوف، اول سے غزل کا موضوع رہا ہے۔ اخلاقیات اور فلسفہ بھی درآیا ہے لیکن بیسوی صدی عیسوی میں غزل کا رنگ بدلتا ہے۔ اس لیے موصوفہ نے یہاں غزل کے روایتی موضوعات سے انحراف کرنے والے شعرا کے ساتھ جونؔ ایلیا کی غزل کی مثالیں بھی پیش کی ہیں:
ایک ہی تو ہوس رہی ہے ہمیں
اپنی حالت تباہ کی جائے
پھر معاصرین شعرا کے مقابل جونؔ ایلیا کے امتیازات کا ذکر ہے اور مختلف شعرا کے اشعار کے نمونے پیش کرکے جونؔ ایلیا کی شاعری سے ان کا خوب موازنہ کیا گیا ہے۔ جونؔ ایلیا کے مختلف شعری نمونوں سے ان کے امتیازات بیان کیے گئے ہیں۔ اس ضمن میں قبل از تقسیم اور بعد شعر کے نمونے پیش کیے گئے ہیں، جن میں سب سے بڑا امتیاز جونؔ ایلیا کا یہ ہے کہ انہوں نے محبوب کو عجیب عجیب انداز سے اپنی شاعری میں پیش کیا ہے۔ پھر صنعتی انقلاب کے حوالہ سے معاصرین شعرا اور جون ایلیا کا موازنہ اور امتیازات کا ذکر ہے۔ بہ قولِ احمد ندیم قاسمیـ ’’جونؔ ایلیا اپنے معاصرین سے نہایت درجہ مختلف اور انتہائی منفرد شاعر ہے۔‘‘
اس کے بعد نظمِ جدید کے حوالے سے جونؔ ایلیا کے مقام کا تعین کیا گیا ہے۔ اس کے بعد ان کے پسندیدہ موضوعات کی فہرست دی گئی ہے۔ سیاسی و قومی موضوعات، رومانی، ہجرت کے متعلق، تنہائی اور کرب سے متعلق، فلسفیانہ وغیرہ۔ صنعتی دور کے تناظر میں ان کے دیگر موضوعات کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔ ان کے بعد ان کے منتخب نظموں کا تجزیہ پیش کیا گیاہے، جیسے پہلے مجموعۂ کلام ’’شاید‘‘ کی نظم ’’سوفسطا‘‘ (ایک فلسفیانہ نظم)، نظم ’’شہرِ آشوب‘‘ (دور کی خستہ حالی)، نظم ’’بس ایک اندازہ‘‘ (آزاد نظم)، ’’بے ثبات‘‘ (ہائیکو کی ہیئت میں)، نظم ’’معمول‘‘، رمزِ ہمیشہ‘‘ (طویل نظم)، ’’حسن اتنی بڑی دلیل نہیں‘‘ (ابتدائی زمانے کی نظم)، لباس (دوسرے مجموعۂ کلام کی رومانی نظم، ’’تم مجھے بتاؤ تو‘‘ (گمان میں شامل رومانوی نظم)، ’’عجب بات ہے‘‘ (مجموعۂ کلام ’’لیکن‘‘ کی آزاد نظم)، ’’ناکارہ‘‘ (مجموعہ کلام ’’گویا‘‘ کی مختصر مگر جامع نظم)۔
اس کے بعد جونؔ ایلیا کے تمام قطعات کی پوری تفصیل موجود ہے اور چند قطعات جدید دورِ عشق کے حوالے سے جدید تصور پر مبنی پیش کرکے ان کی وضاحت کی گئی ہے اور ان کے قطعات کی خصوصیات بھی بیان کی گئی ہیں۔ غزل اور نظم کی طرح ان کے قطعات کے دوسرے مختلف موضوعات کا بھی ذکر ہے۔ اس باب کے آخر میں جونؔ ایلیا کے شخصی مرثیہ پر تفصیلی گفتگو کرکے ان کے مختلف شخصی مرثیوں کی تفصیل ہے۔ کیوں کہ انہوں نے کوئی ’’کربلائی مرثیہ‘‘ نہیں لکھا ہے۔
بابِ چہارم میں جونؔ ایلیا کی شاعری کی ادبی قدروقیمت کے عنوان کے تحت ان کے لفظی نظام کے حوالے سے یہ رقم ہے کہ وہ علامت کے بجائے براہِ راست اظہار کو ترجیح دیتے ہیں۔ انہوں نے کچھ خاص لفظیات کو اپنی شاعری میں برتا ہے جیسے ’’شہر، گھر، گلی کوچے، خاک، دشت، شام، شب، آسمان، زمین، رات دن، چاند، بستی، زمین، موج، جنگل، خون، لہو، سرخ، شاخ‘‘ وغیرہ۔ ان کے علاوہ ان کی شاعری میں انہوں نے ’’فاختہ، خواب، دھوپ، بہار، نیند‘‘ وغیرہ کو علامت بناکر نظم کیا ہے۔ اس کے علاوہ اُردو، فارسی ترکیبات میں جدت پیدا کرکے استعمال کیا ہے۔ محاسنِ شعر کی مد میں ان کی شاعری میں بے جا صنائع بدائع سے اجتناب نظر آتا ہے۔ اہم محاسن میں تلمیحات، صنعتِ تضاد، پیکر تراشی، محاورات، صنعتِ مراعاۃ النظیر و اشتقاق، انوکھی ردیفوں، سہلِ ممتنع وغیرہ کا برمحل اور خوب صورت استعمال کا ذکر ہے اور ان کی بہترین مثالیں دی گئی ہیں۔ ان کے استفہامیہ انداز، منفرد لب و لہجہ، تیور کا ذکر اور مثالیں بھی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ تشبیہات اور استعارات کے برمحل استعمال کا بھی ذکر ہے۔ سب سے اہم بات جونؔ ایلیا کی انفرادیت کو عنوان بناکر شاعری اور نثر میں ان کی انفرادیت کو واضح کیا گیا ہے۔ خاص کر ان کی نثری تخلیقات کا حوالہ دے کر نثری انفرادیت کو بھی واضح کیا گیا ہے۔ انہوں نے شاعری میں مشکل بحروں اور سنگلاخ زمینوں پر کامیاب سفر کیا ہے۔
آخری اور پانچویں باب میں اس پوری کتاب کا خلاصہ بعنوانِ ’’اختتامیہ‘‘ دیا گیا ہے کہ جونؔ ایلیا کی شاعری میں کسی عظیم شاعر کی تمام تر خوبیاں نمایاں نظر آتی ہیں۔ انہوں نے نئی فکر، لہجے، نئے آہنگ و اسلوب اور ایک نئے انداز، اسلوب اور نہج و مزاج سے اُردو شاعری کو مالا مال کیا ہے:
ختم ہے بس جون پر اُردو غزل
اُس نے کی ہیں خون کی گل کاریاں
مجموعی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ جونؔ ایلیا کی شخصیت، فن و فکر اور شاعری کے حوالے سے یہ ڈاکٹر نیہا اقبال کی کامیاب، قابلِ قدر اور قابلِ ستائش کاوش ہے جو جونؔ ایلیا کے مداحوں اور ان کے متعلق تحقیق و تدقیق کرنے والوں کے لیے ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔
قارئین! دورانِ مطالعہ مَیں نے اس مقالے سے بہت کچھ سیکھا اور اخذ کیا۔ بس دو ذرا سی خامیاں نظروں سے گزریں۔ املا کی چند اہم غلطیاں اور تکرار۔ باقی اس کاوش سے ’’جونیات‘‘ اور ’’جون شناسی‘‘ میں بھر پور مدد اور مواد مل سکتا ہے۔ لہٰذا جون شناسوں کو اس سے بھر پور انداز میں مستفید ہونا چاہیے۔ کیوں کہ یہ ان کے لیے سنہری موقع ہے۔
……………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔