انڈین فلم انڈسٹری میں گیت نگاری کے حوالہ سے ایک معتبر نام جاں نثار اخترؔ (1914-1976) ہے۔ جاں نثار اخترؔ بھی ان شعرا میں شامل ہے جو ایک طویل عرصہ (50 عیسوی کے عشرے) سے فلموں میں گیت لکھ رہے تھے۔ انہوں نے کئی مقبول گیت لکھے۔ مثلاً
مجھ پہ الزامِ بے وفائی ہے
اے محبت تری دہائی ہے
لیکن 1965ء کے بعد جاں نثار اخترؔ کی مقبولیت اور کمالِ فن دونوں میں بہت اضافہ ہوگیا اور اس عرصہ میں ان کے گیت تعداد اور معیار میں بڑھتے نظر آتے ہیں۔ اگرچہ ان کے گیت معیار کے اعتبار سے کسی بھی بڑے گیت نگار کی تخلیقات کے مقابل رکھے جاسکتے ہیں، مگر جاں نثار اخترؔ کے گیتوں کی تعداد دوسرے گیت نگاروں کے مقابلے میں کم ہے۔
جاں نثار اخترؔ کے گیتوں میں محبت کی تشنگی کا احساس بڑا طاقتور ہے۔ ان کے گیتوں کا لہجہ غزل کے لہجے کی طرح دھیما ہے۔ ایک سکون اور ٹھہراؤ کی کیفیت ان کے گیتوں کا خاصا ہے:
یہ دل اور ان کی نگاہوں کے سائے
مجھے گھیر لیتے ہیں بانہوں کے سائے
اسی گیت کے حولے سے نشاط لکھتی ہیں: ’’ہوا کو، ہر ندی کے بدن کو چومتے ہوئے دیکھنا ا ور دل اور نگاہوں کے سائے میں بیٹھنا، یا ان کی تلاش میں یا ہجر کی ھوپ میں سفر کرنا، جاں نثار اخترؔ جیسے حساس شاعر کا کام تھا۔
شام سہانی مہکی مہکی خوشبو تیری لائے
پاس کہیں جب کلیاں چٹکیں میں جانوں تو آئے
(’’ارتباطِ حرف و معنی‘‘ از ’’عاصم ثقلینؔ‘‘، پبلشرز ’’فکشن ہاؤس، لاہور‘‘، سنہ اشاعت 2015ء، صفحہ نمبر 22 سے انتخاب)