1970ء کے عشرہ کے بعد سامنے آنے والے گیت نگار جاوید اختر (پیدائش: 1945ء) ہے۔
جاوید اختر کا تعلق ایک معتبر ادبی گھرانے سے ہے۔ انہیں فلمی گیتوں کی دنیا، اپنے والد (جاں نثار اختر) سے ورثے میں ملی ہے۔
نسیمہ قاضی اپنے ایک تحقیق مضمون (’’فلمی گیت اور اردو ادب‘‘، فنون، لاہور، شمارہ 126، جنوری تا مارچ 2002ء) میں رقم کرتی ہیں: ’’جاوید اختر شاعر ابنِ شاعر ابنِ شاعر ہیں۔ ان کے قلم میں جادو نہ صرف ان کی گہری سوچ کا نتیجہ ہے بلکہ میراث بھی ہے۔‘‘
جاوید اختر کے گیتوں میں امید اور خوشی کا پہلو بڑا نمایاں ہے۔ انہوں نے فلمی گیتوں میں کئی سرخوش اور سر مست گیتوں کا اضافہ کیا ہے۔ ان کے اکثر گیتوں سے یاس و حرماں کوسوں دور ہے اور اسی رجائی نقطۂ نظر کے حوالے سے جاوید اختر بھارتی فلمی اردو شعرا میں سب سے بڑا نام ہے:
اک لڑکی کو دیکھا تو ایسا لگا
جیسے کھلتا گلاب
جیسے شاعر کا خواب
جیسے اجلی کرن
جیسے بن میں ہرن
جیسے چاندنی رات
جیسے نرمی کی بات
جیسے مندر میں ہو اک جلتا دِیا
اک لڑکی کو دیکھا تو ایسا لگا
(’’ارتباطِ حرف و معنی‘‘ از ’’عاصم ثقلینؔ‘‘، پبلشرز ’’فکشن ہاؤس، لاہور‘‘، سنہ اشاعت 2015ء، صفحہ نمبر 27 سے انتخاب)