ایسا باریک یا بد خط لکھنا کہ جسے اپنے سوا دوسرا نہ پڑھ سکے۔ موسیٰ علیہ السلام پیغمبر کا لکھا خدا کے سوا، جو اس کا ہم راز تھا، دوسرا نہیں پڑھ سکتا۔ موسیٰ علیہ السلام خدا سے ہم کلام ہوتے تھے اور اکثر راز کی باتیں اشاروں اور کنایوں میں باہم ادا ہوا کرتی تھیں۔ اس سبب سے طنزاً ایسے بد خط کو کہنے لگے کہ جس کا خط وہی پڑھ سکے جسے القا ہو۔
صاحبِ فرہنگِ آصفیہ رقم طراز ہیں کہ اول معنی میں ’’مو‘‘ بمعنی ’’بال کی مانند‘‘ اور ’’خود آ‘‘ یعنی ’’آپ آکر سمجھنا چاہیے‘‘ اور دوسرے میں ’’موسیٰ پیغمبر‘‘ اور ’’خدا‘‘ کی طرف اشارہ خیال کرنا چاہیے مگر املا دوسرے معنی کے موافق رواج ہے اور زیادہ تر لوگ اسی طرح تلمیح کرتے ہیں۔ پس اس وجہ سے یہی املا لکھا گیا۔ ورنہ اس طرح لکھنا غلط ہے۔
اس کہاوت کے تعلق سے ایک چھوٹی سی حکایت بھی اس طرح بیان کی جاتی ہے: ’’ایک سپاہی کو اپنے گھر سے آئے ہوئے کافی عرصہ ہوچکا تھا۔ وہ ایک چٹھی لکھنے والے کے پاس گیا اور اس سے ایک چٹھی لکھنے کی گزارش کی۔ چٹھی لکھنے والے نے کہا میرے پیروں میں شدید درد ہو رہا ہے۔ اس لیے میں چٹھی نہیں لکھ سکتا۔ سپاہی نے حیرت سے کہا کہ چٹھی تو ہاتھ سے لکھی جاتی ہے نہ کہ پاؤں سے۔ اس نے جواب دیا کہ تم ٹھیک کہہ رہے ہو، لیکن جب مَیں کسی کے لیے چٹھی لکھتا ہوں، تو مجھے ہی وہاں جا کر اس چٹھی کو پڑھنا بھی پڑتا ہے۔ کیوں کہ میرا لکھا ہوا کوئی دوسرا نہیں پڑھ سکتا۔ پیروں میں درد ہونے کی وجہ سے مَیں چل پھر نہیں سکتا۔ اس لیے چٹھی لکھنے سے معذور ہوں۔
(ڈاکٹر شریف احمد قریشی کی تصنیف ’’کہاوتیں اور ان کا حکایتی و تلمیحی پس منظر‘‘ مطبوعہ ’’دار النور، لاہور‘‘ اشاعت 2012ء، صفحہ 249 سے انتخاب)