(17 مارچ، 1952ء) آج صبح خالو آئے، دن بھر ہوٹل، احباب۔ ڈاکٹر صلاح الدین اکبر کی شادی میں ولیمہ۔ پھر نشست رہی۔ ایک شعر کہا:
دائم آباد رہے گی دنیا
ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہوگا
اس وقت آنکھ کے تارے کو میٹرو تک چھوڑ کر آ رہا ہوں۔ اس نے مجھے ایک چراغ کھلایا۔ ایک ننھی سی دیا سلائی دی جس پر بِگل بنا ہوا تھا۔ یہ دیا سلائی کا سائز مجھے بہت پسند ہے۔ سگریٹ کیپسٹن اور گولڈ فلیک بہت پیتا ہوں، لیکن کریون اے اور دوسرے اچھے سگریٹ بھی پسند ہیں۔ سوبرانی کچھ عرصہ نور عالم نے پلایا، لیکن پھیکا اور معصوم سگریٹ ہے۔ کھانے میں مرغ، پرند کا گوشت ، ہرن کی ران۔ پھلوں میں آم، انگور، سردا، انار، آڑو، مالٹا بہت پسند ہیں، دہی مکھن بے حد۔ خوش پوشی اور مہمان نوازی کی تو اب آرزو ہے۔ دوست ہر قسم کا بناتا ہوں۔
(’’ڈائری، چند پریشاں کاغذ‘‘ از ناصر کاظمی،مطبوعہ ’’اِلقا پبلی کیشنز‘‘ اشاعتِ دوم، 2019ء، صفحہ نمبر 32 سے انتخاب)