قتیلؔ شفائی نے بمبئی میں ایک رات ندا فاضلی کے ساتھ گزاری۔ ندا نشے میں تھے اور اس عالم میں قتیلؔ شفائی کی خوب تعریف کرتے رہے۔ قتیلؔ نے ان سے کہا، جو کچھ کہہ رہے ہو، وہ لکھ کر دے دو۔ نداؔ نے وعدہ کیا کہ وہ صبح لکھ دیں گے۔ صبح ہوئی تو ندا کا نشہ ہرن ہوچکا تھا۔ ان سے ایفائے وعدہ کے لیے کہا گیا، تو انہوں جواب دیا: ’’مَیں کیوں لکھوں؟‘‘
ہماری یہ تحریر نداؔ فاضلی کی نظر سے گزرے، تو ہم ان سے عرض کریں گے کہ وعدہ کرکے مکر جانا بری بات ہے۔ قتیلؔ شفائی ہمارے بزرگ شاعر ہیں، ان کی دل آزاری نہیں کرنی چاہیے۔ آپ نے نشے کی حالت میں ان کی شاعری کی جو تعریف کی تھی، اگر آپ اسے عالمِ ہوش میں نہیں لکھ سکتے، تو نشے کی حالت ہی میں لکھ دیجیے۔ اس میں آپ کا کوئی نقصان نہیں، بلکہ فائدہ ہی ہوگا کہ آپ کا نشہ بھی سند بن جائے گا۔
قتیلؔ شفائی کو نداؔ فاضلی ہی سے نہیں اُردو کے عام نقادوں سے بھی شکایت ہے کہ وہ انہیں نظر انداز کر رہے ہیں۔ فرماتے ہیں: ’’آپ مجھے تنقید نگاروں کی تحریروں میں کم کم پائیں گے۔ مَیں تنقید سے مطمئن نہیں، اس لیے کہ میرے ساتھ انصاف نہیں ہو رہا۔‘‘
(’’مزید خامہ بگوشیاں‘‘ از ’’مشفق خواجہ‘‘ مطبوعہ ’’مقتدرہ قومی زبان پاکستان، 2012ء‘‘، صفحہ نمبر 67 سے انتخاب)