ہم نے اپنے ایک کالم میں غالبؔ کے شاگرد میاں داد خاں سیاحؔ کا ذکر کیا تھا۔ یہ وہی سیاحؔ ہیں جن کا یہ شعر
قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو
خوب گزری گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو
ضرب المثل کی طرح مشہور ہے۔ سیاحؔ کو غالبؔ نے ’’سیف الحق‘‘ کا خطاب دیا تھا اور اپنی ایک کتاب ’’لطائفِ غیبی‘‘ ان کے نام سے چھاپی تھی۔
میاں داد خان سیاح ایک انتہائی دلچسپ شخصیت کے مالک تھے، بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ ایک عجیب و غریب کردار تھے۔ عادات و اطوار اور پیوست کلام کے اعتبار سے تو وہ موجودہ زمانے کے شاعر معلوم ہوتے ہیں۔ وہ اورنگ آباد کے رہنے والے تھے۔ لڑکپن ہی میں سورت چلے آئے، شاعری اور سیاحت سے اس قدر دلچسپی تھی کہ پوری زندگی انہی اشغال کی نذر کردی۔ ہندوستان بھر گھومتے پھرتے تھے۔ آج کلکتے میں ہیں، تو کل لکھنو میں۔ کبھی دہلی میں ہیں، تو کبھی آگرے میں، بمبئی، پونا، کانپور، مدراس، حیدر آباد، بنارس، بنگلور، شاید ہی کوئی ایسا شہر ہوگا جہاں سیاحؔ نہ گئے ہوں، اور وہاں ان کے اعزاز میں مشاعرے نہ ہوئے ہوں۔
پبلک ریلیشننگ کے وہ زبردست ماہر تھے۔ ہر شہر میں ان کے جاننے والے موجود تھے، وہ انہیں اپنے ورود کی پہلے سے اطلاع کر دیتے تھے، ہر جگہ ان کی خوب آؤ بھگت ہوتی، مشاعرے اور رقص و سرود کی محفلیں منعقد ہوتیں۔ دولت کی فراوانی تھی، دل کھول کر خرچ کرتے، ضرورت مندوں کی مدد بھی کرتے۔ یہاں تک کہ گاہے گاہے غالبؔ کی مالی مدد بھی کیا کرتے تھے۔ سیاحؔ کی مالی حالت سے لوگ بے حد مرعوب تھے اور انہیں رئیس ابن رئیس سمجھتے تھے۔ مگر اصل معاملہ یہ تھا کہ انہیں ’’قلب سازی‘‘ کا فن آتا، یعنی جعلی نوٹ بنانے میں ماہر تھے، جوانی ہی میں یہ فن سیکھ لیا تھا۔ ایک طویل عرصہ تک انہوں نے اس فن کو ذریعۂ معاش بنائے رکھا۔ 1878ء میں جب ان کی عمر 50 کے قریب تھی، بمبئی کے ریلوے اسٹیشن پر سو روپے کا جعلی نوٹ بھناتے ہوئے پکڑے گئے۔ مقدمہ چلا اور چودہ سال قیدِ بامشقت کی سزا ہوئی اور یوں شہروں گھومنے والا جیل کی چار دیواری میں مقید ہوگیا۔ پڑھے لکھے آدمی تھے۔ جیلر نے انہیں اپنے بچوں کا اتالیق مقرر کر دیا۔ اس خدمت کے عوض سیاحؔ کو جیل میں بھی گھر کا سا آرام ملنے لگا۔ 1887ء میں ملکہ وکٹوریہ کی سلور جوبلی کے موقع پر ایک قصیدہ لکھا۔ جیلر نے اپنی سفارش کے ساتھ ملکہ کو بھجوا دیا۔ اس کے صلے میں سیاحؔ کی باقی ماندہ سزا معاف کر دی گئی۔ رہائی کے بعد وہ سورت چلے گئے اور باقی ماندہ زندگی عسرت اور شعر گوئی میں بسرکر دی۔ 1907ء میں ان کا انتقال ہوا۔
انیسویں صدی میں کے اخباروں میں سیاحؔ کا ذکر خاصا ملتا ہے۔ ’’اودھ اخبار‘‘ میں ان کے بارے میں جو خبریں شائع ہوئی تھیں، انہیں قاضی عبدالودود نے ایک مضمون میں جمع کر دیا ہے۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ سیاحؔ آج کل کے ادیبوں کی طرح اخباری سطح پر زندہ رہنے کی اہمیت سے پوری طرح واقف تھے۔ اگر وہ آج زندہ ہوتے، تو امریکی، کینیڈا اور خلیج کی ریاستوں کے مشاعروں میں ان کی بڑی مانگ ہوتی اور کئی جگہ ان کا جشن منایا جاچکا ہوتا۔
(’’مزید خامہ بگوشیاں‘‘ از ’’مشفق خواجہ‘‘ مطبوعہ ’’مقتدرہ قومی زبان پاکستان، 2012ء‘‘، صفحہ نمبر 79 اور 80 سے انتخاب)