٭ روزمرہ:۔ دو یا دو سے زیادہ الفاظ کا مجموعہ جو اہلِ زباں کی بول چال کے مطابق حقیقی معنوں میں استعمال ہوا ہو، روزمرہ کہلاتا ہے۔ مثلاً، وہ آئے دن سکول سے غیر حاضر رہتا ہے۔ اس جملے میں ’’آئے دن‘‘ درست روزمرہ ہے، جو اہلِ زباں کی بول چال کے مطابق ہے۔ اگر اسے ’’آئے روز‘‘ لکھا جائے، تو یہ اہلِ زباں کی بول چال کے مطابق نہیں ہے۔ اس لیے یہ روزمرہ غلط ہے۔ اگر چہ اس طرح لکھنے سے معنی میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس طرح ’’روز بروز مہنگائی میں اضافہ ہورہا ہے۔‘‘ اس جملے میں ’’روز بروز‘‘ درست روز مرہ ہے۔ کیوں کہ اہلِ زباں ’’دن بدن‘‘ نہیں بولتے، یعنی ’’روز اور دن‘‘ اگر چہ ہم معنی ہیں لیکن ’’آئے‘‘ کے ساتھ ’’روز‘‘ کا استعمال درست نہیں۔ کیوں کہ اہلِ زباں ’’آئے دن‘‘ بولتے ہیں۔ اس کے علاوہ ’’روز بروز ‘‘ کی جگہ ’’دن بدن‘‘ غلط ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ روزمرے کی ترکیب قیاسی نہیں ہوسکتی یعنی ’’آئے دن‘‘ کی جگہ ’’آئے روز‘‘ اور ’’روز بروز‘‘ کی جگہ’’دن بدن‘‘ غلط ہے۔ اس طرح ’’پان سات‘‘ پر قیاس کرکے ’’چھے نو یا نو بارہ‘‘ کہنا غلط ہے۔ روزمرہ، محاورے سے زیادہ وسیع ہے جس کا دائرہ کار پوری زبان ہے۔ محاورہ مجاز ہے، روزمرہ حقیقت ہے۔ محاورہ تو خود روز مرہ کے سائبان میں پناہ لیتا ہے۔ اس لیے ہر محاورہ، روز مرہ ہوسکتا ہے لیکن ہر روزمرہ، محاورہ نہیں ہوسکتا۔ محاورے کا روزمرے کے مطابق ہونا لازمی ہے، جب کہ روزمرہ، محاورے کا محتاج نہیں۔
٭ محاورہ:۔ یہ عربی زبان کا لفظ ہے جس کا صحیح تلفظ ’’مُحاوَرَہ‘‘ ہے اور ’’مُفَاعَلہ‘‘ کے وزن پر ہے، جس کا بنیادی ماخذ ’’ح و ر‘‘ ہے جس کے معنی ہیں: بات چیت، گفتگو۔ اور بابِ مفاعلہ میں یہ خاصیت ہے کہ اس میں ’’فعل‘‘ جانبین سے ہوتا ہے۔ اس باب کے مطابق ’’محاورہ‘‘ کا مطلب ہے ایک دوسرے سے بات چیت اور گفتگو یا بحث و مباحثہ کرنا۔
٭ محاورہ کی تعریف:۔ دو یا دو سے زیادہ الفاظ کا مجموعہ جو اہلِ زباں کی بول چال کے مطابق مجازی یا غیر حقیقی معنوں میں استعمال ہوا ہو۔ مثلاً، ’’سر پر چڑھنا‘‘ کے حقیقی معنی ’’سر کے اوپر چڑھنا‘‘ ہیں جب کہ مجازی معنوں میں اس سے مراد ’’گستاخ‘‘ یا ’’بدتمیز‘‘ ہے۔
٭ روز مرہ اور محاورہ میں مماثلت:۔
پہلی مماثلت:۔ دونوں کے لیے دو یا دو سے زیادہ الفاظ کا مجموعہ ہونا ضروری ہے۔
دوسری مماثلت:۔ یہ مجموعہ دونوں صورتوں میں اہلِ زباں کی بول چال کے مطابق ہونا ضروری ہے۔
تیسری مماثلت:۔ دونوں کے لیے ضروری ہے کہ قیاسی نہ ہوں، وغیرہ۔
٭ روزمرہ اور محاورے میں فرق:
پہلا فرق:۔ روزمرہ حقیقی معنوں میں ہوتا ہے جب کہ محاورہ مجازی یا غیر حقیقی معنوں میں ہوتا ہے۔ مثلاً، آنکھوں سے ’’اُترنا‘‘ محاورہ ہے اور ’’چھت سے اُترنا‘‘ روزمرہ ہے۔
دوسرا فرق:۔ محاورہ، قواعد کی حدود میں آتا ہے جب کہ روزمرہ، قواعد سے بالاتر ہوتا ہے۔
تیسرا فرق:۔ محاورہ میں اہلِ زباں بھی تبدیلی نہیں کرسکتے جب کہ روزمرہ اہلِ زباں کے مطابق بدلتا رہتا ہے۔
چوتھا فرق:۔ محاورے میں ایک اسم اور ایک فعل کا ہونا ضروری ہے جب کہ روزمرہ میں یہ شرط نہیں ہے۔
٭ محاورے کے لیے شرائط:۔ محاورے کے لیے چند اہم شرائط حسبِ ذیل ہیں:
شرطِ اول:۔ محاورہ کم از کم دو الفاظ کا مجموعہ ہو، کیوں کہ ایک لفظ محاورہ نہیں ہوسکتا۔
شرطِ دوم:۔ یہ مجموعہ مجازی یا غیر حقیقی معنوں میں مستعمل ہو۔
شرطِ سوم:۔ اہلِ زباں کی بول چال کے مطابق ہو۔
شرطِ چہارم:۔ محاورے میں ایک اسم اور ایک فعل کا ہونا ضروری ہے۔ صرف اسما اور صرف افعال محاورہ نہیں بن سکتے۔
شرطِ پنجم:۔ محاورہ قواعد کی حدود میں ہوتا ہے، قواعد سے بالاتر نہیں ہوسکتا۔
شرطِ ششم:۔ محاورے میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی، یہاں تک کہ اہلِ زباں بھی اس میں تبدیلی نہیں کرسکتے۔
شرطِ ہفتم:۔ محاورہ قیاسی نہ ہو۔ مثلاً ’’نو دو گیارہ ہونا‘‘ ایک محاورہ ہے جس کا مطلب ہے غائب ہونا۔ اگر اس پر قیاس کرکے کہا جائے کہ واقعی ’’نو اور دو‘‘ جمع کرنے سے ’’گیارہ‘‘ کی عدد بنتی ہے، تو اس کی جگہ دو ہندسے مثلاً ’’پانچ چھے ہونا‘‘ یا ’’آٹھ تین ہونا‘‘ کہنا غلط ہے۔ کیوں کہ یہ محاورہ نہیں ہے۔ یا آنکھیں پھٹنا کا مطلب ہے ’’حیران ہونا‘‘ یا ’’مغرور ہونا‘‘۔ اگر اس کی جگہ کہا جائے: چشمیں یا نگاہیں پھٹنا، تو غلط ہوگا۔ وغیرہ۔

………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔