میرزا رفیع سوداؔ کے دیوانِ مرثیہ کا دیباچہ اُس دور کی نثر کا ایک اور نمونہ پیش کرتا ہے۔ سوداؔ کی نثر کو دیکھ کر یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اردو کو فارسی کے ہم پایہ بنانے کے لیے اس زمانے میں کتنی کد و کاش کی جارہی تھی۔ سوداؔ نے شاعری کے اسلوب کو نثر میں برقرار رکھنے کی کوشش کی اور عبارت کو زوردار بنانے کے لیے قوافی کا استعمال بھی کیا ہے۔ مثال کے طور پر مندرجہ ذیل اقتباس ملاحظہ ہو:
’’اس مدت میں مشکل گوئی دقیقہ سنجی کا نام رہا ہے اور سدا مرغِ معنی عرش آشیاں گرفتارِ دام رہا ہے۔ باوصف اس کے کہ قول خذ ما صفا ورع ماکد پر عمل رہا ہے۔‘‘
سودا کے دیباچے کی تاریخی اہمیت یہ ہے کہ اس زمانے میں اردو شاعری کی کتابوں کے دیباچے اور تذکروں کا نثری متن بھی فارسی میں لکھا جاتا تھا۔ اگرچہ سوداؔ نے اپنی افتادِ طبع کے مطابق یہ دیباچہ اپنے کسی حریفِ فن کے لیے لکھا ہے۔ تاہم اسے اردو کا اولین دیباچہ لکھنے کا افتخار حاصل ہے۔
(ڈاکٹر انور سدید کی کتاب ’’اردو ادب کی تحریکیں‘‘، مطبوعہ ’’انجمنِ ترقیِ اردو پاکستان‘‘، اشاعتِ دہم فروری، 2018 ء، صفحہ نمبر222 سے انتخاب)