مجازِ مرسل، علمِ بیان کی تیسری شاخ ہے۔ اصطلاح میں یہ وہ لفظ ہے جو اپنے حقیقی معنوں کے بجائے مجازی معنوں میں استعمال ہو اور حقیقی مجازی معنوں میں تشبیہ کے علاوہ کوئی اور علاقہ ہو۔ مثلا ’’الحمد‘‘ پڑھنے سے مراد پوری سورۂ فاتحہ ہے۔ بادل برسنے سے مراد بارش ہے، دریا بہنے سے مراد صرف پانی بہنا ہے وغیرہ۔
٭ مجازِ مرسل کی اقسام:۔ تمام ماہرینِ بلاغت اس بات پر متفق ہیں کہ مجازِ مرسل کی کل چوبیس قسمیں ہیں جن میں سے چند اہم حسبِ ذیل ہیں:
1:۔ کل بول کرجزو مراد لینا:۔ مراد یہ ہے کہ جو لفظ جن معنی کے لیے وضع ہوا ہے، اس سے اُس چیز کا ایک جزو مراد لیا جائے، مثلاً: ’’بازار سے سودا لانا‘‘ بازار (کُل) بول کر ایک دکان (جزو) مراد لینا۔
مجھ سے ملتے ہی وہ بے باک ہوجانا تیرا
وہ ترا دانتوں میں انگلی دبانا یاد ہے
انگلی سے مراد انگلی کی پور ہے، یعنی کُل (اُنگلی) بول کر جزو (پور) مراد لینا۔
اور بازار سے لے آئیں اگر ٹوٹ گیا
ساغرِ جم سے میرا جامِ سفال اچھا ہے
کُل (بازار) بول کر جزو (ایک دکان) مراد لینا۔
2:۔ جزو بول کر کل مراد لینا: اس صورت سے مراد یہ ہے کہ ایسا لفظ بولا جائے جس کا اطلاق اپنے اصلی اور حقیقی معنی کے لحاظ سے ’’جزو‘‘ پر ہوتا ہے، لیکن اس سے جزو کے بجائے کُل مراد لیا جائے، جیسے سورۂ فاتحہ کو ’’الحمد‘‘ کہتے ہیں اور ’’کلمے‘‘ کا اطلاق ’’اشہدان لا الہ الا اللہ‘‘ پر کرتے ہیں: جیسے بقولِ فیض
رنگ پیرہن کا، خوشبو زُلف لہرانے کا نام
موسمِ گُل ہے تمہارے بام پر آنے کا نام
یہاں ’’موسمِ گُل‘‘ کی ترکیب میں ’’گُل‘‘ کے لفظ سے پورا موسمِ بہار مراد لیا گیا ہے، یعنی جزو (پھول) بول کر کُل (موسمِ بہار) مراد لینا۔
جس جا ہجوم بلبل و گل سے جگہ نہ تھی
واں ہائے ایک برگ نہیں ایک پر نہیں
یہاں ’’برک‘‘ سے مراد گُل اور ’’پر‘‘ سے مراد پرندہ (بلبل) ہے، یعنی جزو بول کر کُل مراد لینا۔
3:۔ سبب بول کر مسبب مراد لینا: اس صورت سے مراد ہے کہ ایسا لفظ بولا جائے جس کا اطلاق اپنے اصلی اور حقیقی معنی کے اعتبار سے ’’سبب‘‘ ہوتا ہے، مگر اس سے سبب کے بجائے مسبب مراد لیا جاتا ہے جیسے: ’’بادل خوب برسا‘‘ در حقیقت پانی برستا ہے، بادل تو سبب ہے یا یہ کہنا کہ ’’گرمیوں میں اس مکان میں سورج آجاتا ہے۔‘‘ یعنی دھوپ آجاتی ہے۔ سورج، سبب ہے اور دھوپ مسبب، جیسے بقولِ ناسخؔ
اس قدر کھایا تری فرقت میں غم
دل ہمارا زندگی سے سیر ہے
’’سیر ہونا‘‘ بیزار ہونے کے معنی میں ہے۔ سیری، غذا سے بیزاری کا سبب ہوتا ہے۔ بقولِ میر تقی میرؔ
تم کوہے آٹھ پہر حرف و حکایت اُن سے
بازو جانو انہیں، چشمِ حمایت اُن سے
بازو سے مراد مددگار ہے۔ بازو سبب ہے مددگاری کا۔
4:۔ مسبب بول کر سبب مراد لینا: اس صورتِ حال میں ایسا لفظ بولا جاتا ہے جس کا اطلاق اپنے اصلی اور حقیقی معنی کے اعتبار سے سبب (نتیجہ) پر ہوتا ہے، جیسے مینہ برستے وقت کہنا ’’اناج برس رہا ہے‘‘ اس سے مراد پانی برسنا ہے، جو اناج پیدا ہونے کا ذریعہ اور سبب ہے۔ جیسے
اس کا کوئی گود کا پالا نہ تھا
گھر میں کوئی گھر کا اُجالا نہ تھا
اس شعر میں گھر کے اُجالے سے مراد اولاد ہے۔ اولاد مسبب ہے، اور اُجالا سبب ہے۔ بقولِ ذوقؔ
ہر ایک خار ہے گل، ہر گل ایک ساغرِ عیش
ہر ایک دشتِ چمن، ہر چمن بہشتِ نظیر
ساغر، شراب کی جگہ ساغرِ عیش بولا۔ شراب مسبب ہے، عیش سبب ہے۔
5:۔ ماضی بول کر حال مراد لینا: یعنی کسی کام کا نام زمانۂ سابق کی رعایت سے لینا جیسے کسی ریٹائرڈ پرنسپل یا کرنل کو اب بھی پرنسپل یا کرنل کہہ کر پکارنا، جیسے:
تو نے برپا کیے ہیں یہ افلاک
خاک کو تونے دی یہ صورتِ پاک
عطا کی وہ مٹی کو عقل و تمیز
ہوئی شکل یوسف جوہر دلعزیز
مشتِ خاک (مٹی) سے مراد انسان ہے اور یہ اس کی ماضی کی حالت ہے۔
6:۔ مستقبل بول کر حال مراد لینا: اس صورت میں ایسا لفظ بولا جاتا ہے جس کا اطلاق اپنے اصلی اور حقیقی معنوں میں مستقبل کی حالت پر ہوتا ہے، مگر اس سے موجودہ حالت یا کیفیت مراد لی جاتی ہے۔ جیسے میڈیکل کے طالب علم کو ڈاکٹر کہہ کر پکارنا……
بقولِ انیسؔ
بیزار ہیں سب ایک بھی شفقت نہیں کرتا
سچ ہے کوئی مردے سے محبت نہیں کرتا
یہ قول ہے حضرت فاطمہ صغریٰ کا جو نہایت بیمار تھیں۔ اپنے آپ کو مردہ فرمایا ہے۔ بقولِ میر تقی میرؔ
یہ جو دو آنکھ مند گئیں میری
اس پہ وا ہوتیں ایک بار اے کاش!
اس شعر میں شاعر محبوب کے دیدار سے مایوس ہوکر خود کو مردہ تصور کررہا ہے۔
7:۔ ماضی بول کر مستقبل مراد لینا، مثلاً:
فردِ اودی کا تفرقہ یک بار مٹ گیا
کل تم گئے کہ ہم پہ قیامت گزر گئی ہے
یہاں پر محبوب کے گذشتہ کل جانے کے بعد کی کیفیت کو مستقبل میں دیکھا گیا ہے۔
8:۔ حال بول کر مستقبل مراد لینا، مثلاً:
کیا کہتے ہیں شاہِ شہدا کسی سے ہوئی یاس
اے وائے مقدر نہ سکینہ کی بجھی پیاس
یہاں پر یہ کیفیت ہے کہ ابنِ امام حسینؓ شہید نہ ہوئے تھے، مگر ان کو آئندہ کے لحاظ سے شہید کہہ کر شاہِ شہدا بولا گیا ہے۔
9:۔ ظرف بول کر مظروف مراد لینا:۔ اس صورت میں ایسا لفظ بولا جاتا ہے جس کا اطلاق اپنے اصلی اور حقیقی معنی کے اعتبار سے ’’ظرف‘‘ پر ہوتا ہے، مگر اس سے ظرف کے بجائے مظروف مراد لیا جاتا ہے۔ ظرف برتن یا جگہ اور مظروف اس چیز کو کہتے ہیں جو برتن یا جگہ کے اندر ہو۔ مثلاًنہر جاری ہے۔ نہر (ظرف) سے مراد پانی (مظروف) ہے۔
10:۔ مظروف بول کر ظرف مراد لینا:۔ اس صورت میں ایسا لفظ بولا جاتا ہے۔ مثلاً الماری سے شربت اُٹھا لانا۔ شربت (مظروف) بوتل (طرف)۔ نشہ پیتا ہے بمعنی شراب پیتا ہے۔ بقولِ علامہ اقبال
نشہ پلاکے گرانا تو سب کو آتا ہے
مزا تو جب ہے کہ گرتوں کو تھام لے ساقی
کی وصیت یہ کچھ ارمان بھری آہ کہ رات
سارے گھر کو ترے بیمار نے سونے نہ دیا
گھر سے مراد گھر میں رہنے والے ہیں۔
11:۔ آلہ بول کر صاحبِ آلہ مراد لینا:۔ اس صورت میں ایسا لفظ استعمال کیا جاتا ہے جس کا اطلاق اپنے اصلی اور حقیقی معنی میں کسی آلہ پر ہوتا ہے، مگر اس سے یا تو صاحبِ آلہ مراد لیا جاتا ہے، یا وہ چیز مراد لی جاتی ہے جس کے لیے وہ آلہ ہو، مثلاً: قلم، تلوار سے زیادہ طاقتور ہے۔ یہاں قلم سے مراد اہلِ قلم اور تلوار سے مراد اہلِ تلوار ہے یعنی سپاہی۔ بقولِ رند
میرے بیاں کو سن سن کے کانپ کانپ اُٹھا
غضب یہ ہے کہ سمجھا نہیں زباں میری
زباں، آلۂ سخن ہے۔ یہاں خود سخن اور بولی مراد ہے یعنی میری بولی نہیں سمجھا……!
بقولِ حالیؔ:
ہوتی نہیں قبول دعا ترکِ عشق کی
دل چاہتا نہ ہو، تو زباں میں اثر کہاں
اس شعر میں شاعر نے زباں سے وہ بولی، گفتگو اور بات چیت مراد لی ہے جو زباں کے آلے کے ذریعے ہوتی ہے۔
12:۔ مجازِ مرسل کی ایک صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ لفظ میں تضاد کا علاقہ ہو، مثلاً بزدل کو دلیر کہنا، بد کردار کو باکردار کہنا یا بے وفا کو با وفا کہنا: مثلاً بقولِ غالبؔ
کی مرے قتل کے بعد اُس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
اس شعر میں زود پشیماں سے مراد دیر سے پشیماں ہے اور زود پشیماں اور پشیماں میں تضاد کا علاقہ ہے۔
13:۔ جو نام مقید کے لیے موضوع ہے اسے مطلق کے لیے استعمال کرنا:۔ مثلاً حرف بولیں اور کلمہ مراد ہو۔ منیرؔ اپنے شعر میں شہیدوں کا لفظ لایا ہے اور مراد اُس سے کشتے ہیں۔ شہید ایسے کشتے کو کہتے ہیں جو بے گناہ یاراہِ خدا میں مارا جائے۔
بقولِ منیرؔ
ہوتری محراب میں سجدہ شہیدوں کا قبول
طاقِ نسیاں میں تو رکھ دے زندگانی کی کتاب
ظاہر ہے کہ شہید مقید ہے اور کشتہ مطلق ہے۔ یہ شعر حضرت علیؓ کی تلوار کی تعریف میں ہے۔ یہاں غرض یہ نہیں ہے کہ حضرت علی ؓ کی تلوار کے کشتے شہدا میں محسوب ہیں۔
14:۔ جو لفظ مطلق کے لیے وضع ہوا ہو، اُس کو مقید پر اطلاق کریں۔ مثلاً ’’روز کہیں اور‘‘ اس سے مراد روزِ قیامت ہو، یا کلمہ بولیں اور مراد اس سے اسم یا فعل یا حرف ہو۔
بقولِ ناسخؔ
قاصد لکھے ہیں اسرارِ محبت میں نے
رکھیو اغیار کی نظروں سے تو پنہاں کاغذ
15۔ مجاورت یعنی نزدیکی:۔ اس میں ایک قریب و نزدیک کا اطلاق دوسرے قریب و نزدیک پر ہوتا ہے، جیسے صف کا لفظ عربی ہے قطار کے معنی میں۔ صفِ ماتم مجازاً اس فرش کو کہتے ہیں جس پر اہلِ ماتم بیٹھتے ہیں۔ اہلِ ماتم فرش سے قربت رکھتے ہیں، اس لیے فرش کو صفِ ماتم کہتے ہیں۔ بقولِ حیدر علی آتشؔ
واقعہ دل کا جو موضوع ہے تو مضموں غم ہے
صف ہر اک میرے دلوں کا صفِ ماتم ہے
16:۔ مضاف کو حذف کرکے اس کی جگہ مضاف کو ذکر کریں، بقولِ حالیؔ:
کیا بر طرف پردہ جہاں سے
جگایا زمانے کو خوابِ گراں سے
17:۔ مضاف الیہ کو حذف کرکے مضاف کا ذکر کرنا، بقولِ برق:
سگِ اصحاب ہوا صحبتِ انساں سے بشر
آدمی ہو کے بھی انسان تو انساں نہ ہوا
یعنی سگِ اصحابِ کہف۔
……………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔