احمد فرازؔ سے پوچھا گیا کہ آپ نے اپنی مادری زبان پشتو میں شاعری کیوں نہیں کی؟ انہوں نے جواب دیا: ’’وہاں اتنے بڑے شاعر تھے کہ مَیں گھبرا گیا۔ غنیؔ صاحب، حمزہؔ شنواری، اجملؔ خٹک۔‘‘
بات بڑی معقول ہے۔ اردو میں فیضؔ اور راشدؔ سمیت کوئی ڈھنگ کا شاعر ہی نہیں تھا۔ احمد فرازؔ نے اچھا کیا کہ اس خلا کو پُر کردیا۔
فرازؔ کے بارے میں یہ تو معلوم تھا کہ وہ فیضؔ کے انداز میں شعر کہتے اور سگریٹ پیتے ہیں، اب یہ معلوم ہوگیا کہ وہ سوالوں کے جواب بھی فیضؔ ہی کے انداز میں دیتے ہیں۔ ڈاکٹر ایوب مرزا کی کتاب ’’ہم کہ ٹھہرے اجنبی‘‘ میں لکھا ہے کہ ایک مرتبہ فیضؔ سے پوچھا گیا کہ انہوں نے پنجابی میں شاعری کیوں نہیں کی؟ انہوں نے جواب دیا: ’’اگر ہم عمر بھر کوشش کریں، تو بھلےؔ شاہ اور وارثؔ شاہ جیسا ایک شعر نہیں کہہ سکتے۔ اس لیے پنجابی زبان میں شعر کہنے کی ہمت نہیں ہوئی۔‘‘
اگر فرازؔ نے فیضؔ کے کسی شعرکا مضمون اُڑا لیا ہوتا، تو اسے سرقے یا توارد کا نام دیا جاسکتا تھا۔ گفتگو کی یکسانیت کے لیے سوائے اس کے کیا کہا جاسکتا ہے کہ بڑے لوگ یکساں طور پر سوچتے ہیں اور وہ بھی پشتو اور پنجابی کے بجائے اُردو میں۔
(’’مزید خامہ بگوشیاں‘‘ از ’’مشفق خواجہ‘‘ مطبوعہ ’’مقتدرہ قومی زبان پاکستان، 2012ء‘‘، صفحہ 67 اور 68 سے انتخاب)