بدی کا بدلہ مل کے رہتا ہے، فعلِ بد کی سزا مل کے رہتی ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک شریر لڑکا نماز پڑھتے میں نمازیوں کی ٹانگیں گھسیٹ لیا کرتا تھا۔ ایک دفعہ اس نے ایک نمازی کی ٹانگ گھسیٹی، تو اس نے سرزنش کرنے کے بجائے سلام پھیر کر چپکے سے ایک ٹکا اس کی ہتھیلی پر رکھ دیا، تاکہ اسے چسکا پڑ جائے۔ واقعی اُسے چاٹ لگ گئی۔ اتفاق سے ایک پٹھان کے ساتھ بھی طفلِ ناداں نے یہی حرکت کی۔ اس نے سلام پھیرتے ہی تلوار نکال کر اس کی گردن اُڑا دی۔ پس جب سے یہ ضرب المثل بن گئی کہ "نمازی کا ٹکا رنگ لاکے رہتا ہے۔”
(’’نادراتِ اردو‘‘ از پروفیسر ایم نذیر احمد تشنہ، سنہ اشاعت 2011ء، مطبوعہ الفیصل ناشران و تاجرانِ کتب، صفحہ 289 سے انتخاب)