بہت سے گناہ کرکے تائب ہونے کی کوشش۔ تمام عمر گناہ کرنے کے بعد پرہیزگار بننے کی کوشش۔ یہ کہاوت اس وقت کہی جاتی ہے جب کوئی شخص تمام عمر گناہ کرے، اور آخر میں پارسا بن جائے۔ اس کہاوت کے تعلق سے ایک چھوٹی سی حکایت اس طرح مشہور ہے:
’’کہا جاتا ہے کہ کسی شہر میں ایک پیشہ ور طوائف رہتی تھی۔ وہ جسم فروشی کا دھندا کرتی تھی۔ اس کے کوٹھے پر ہر طرح کے لوگ آتے تھے۔ جب تک وہ جوان رہی حسن و شباب کا عالم رہا، لوگ اس کے پاس اپنا دل بہلانے آتے رہے۔ پھر جب وہ بوڑھی ہوگئی اور اس کے چاہنے والوں کی تعداد دھیرے دھیرے کم ہوگئی، تو اس نے ایک دن سوچا کہ مَیں نے زندگی بھر گناہ کیا، اور اب تک کوئی نیک کام نہیں کیا۔ کیوں نہ حج کرکے اپنے من کو ہلکا کروں۔ ہوسکتا ہے اللہ تعالیٰ جو رحمان و رحیم ہے، حج کے صلے میں میرے گناہ معاف فرما دے۔ یہ سوچ کر اس نے حج کا ارادہ کرلیا۔ حج کے لیے جاتے وقت اس نے اپنے عزیز و اقارب اور محلے والوں کو بلوایا اور ان سے اپنا قصور معاف کرانے کی درخواست کرتے ہوئے کہا، زندگی کا کیا بھروسا ہے۔ اب میں حج کرنے جا رہی ہوں۔ یہ سن کر ایک من چلے نوجوان نے کہا، کیا خوب! اللہ تیری شان، ’’نوسو چوہے کھاکے بلی حج کو چلی۔‘‘
اُسی وقت یہ فقرہ ضرب المثل ہوگیا۔
(ڈاکٹر شریف احمد قریشی کی تصنیف ’’کہاوتیں اور ان کا حکایتی و تلمیحی پس منظر‘‘ مطبوعہ ’’دارلنور، لاہور‘‘ اشاعت 2012ء، صفحہ 283 سے انتخاب)