شاعری میں درجۂ کمال کو نہ پہنچنے والا شاعر مرثیہ گوئی اختیار کر لیتا ہے۔
یہ مثل اس طرح بھی مشہور ہے: ’’بگڑا شاعر مرثیہ گو، بگڑا گویّا سوزخواں۔‘‘
اس مثل کے وجود میں آنے کا سبب یہ بیان کیا جاتا ہے کہ عہدِ میرؔ و سوداؔ میں مرثیہ گوئی کی حالت بہت خراب تھی۔ ایسے بہت سے شعرا وجود میں آگئے تھے جنہیں فن سے کوئی تعلق نہ تھا۔ ان لوگوں نے مرثیہ گوئی کو اختیار کیا۔ اس مرثیہ گوئی کی بدولت اور مرثیہ کے احترام کی وجہ سے وہ لوگ اعتراضات سے محفوظ رہتے تھے۔ اکثر و بیشتر گویّوں کو اس دینی خدمت کی بدولت اچھا خاصا مالی فائدہ بھی پہنچتا رہتا تھا۔ چناں چہ اُس زمانے کے اساتذہ اور صاحبانِ فن نے ان کی نسبت یہ جملہ (بگڑا شاعر مرثیہ گو) استعمال کرنا شروع کردیا، جس نے دھیرے دھیرے مثل کی صورت اختیار کرلی۔ ایک عرصہ تک یہ مثل اسی طرح بولی جاتی رہی۔ جب وہ دور آیا کہ جس میں یہ مثل اپنے حقیقی معنی میں بولی جانے کے قابل نہیں رہی، یعنی دورِ اَنیسؔ و دَبیرؔ، عشق و تعشق میں تو ایک جملہ کا اضافہ اور کیا گیا: ’’بگڑا گویّا سوز خواں۔‘‘ بعض حضرات نے ’’سوزخواں‘‘ کے بجائے ’’مرثیہ خواں‘‘ بھی لکھا ہے، جو غلط ہے اور معنی میں دل کھول کر اجتہاد کیا ہے۔
(ڈاکٹر شریف احمد قریشی کی تصنیف ’’کہاوتیں اور ان کا حکایتی و تلمیحی پس منظر‘‘ مطبوعہ ’’دارلنور، لاہور‘‘ اشاعت 2012ء، صفحہ 62-63سے انتخاب)