نہ جانے اس جہانِ آب و گل میں اچھے لوگوں کی قلت کیوں ہے، اور کبھی کبھار تو یہ قلت قحط کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ اس وقت سکون کا سانس آدمی لے لیتا ہے جب کوئی مرنجانِ مرنج شخصیت پیدا ہوتی ہے اور آگے چل کر وہ معاشرے کے لیے کسی نعمتِ غیر مترقبہ سے کم ثابت نہیں ہوتی۔ جو اس زرخیز مٹی کی زرخیزی میں اضافہ کا سبب بنتی ہے۔ انہی نابغہ روزگار شخصیات میں سے ایک وادئی سوات سے تعلق رکھنے والی ہمہ جہت شخصیت ساجد علی خان ابوتلتان صاحب کی بھی ہے، جن کے فیضِ عام سے سبھی مستفید ہورہے ہیں۔
متوسط جسم، میانہ قد، سانولی رنگت، روشن آنکھیں اور کالا چشمہ آپ کی پہچان ہے۔ آپ بالکل جمع پونجی کے قائل نہیں۔ اس لیے اکثر جیب خالی رہتی ہے۔ خود پُرتکلف کھانے کے شوقین نہیں، اس لیے مہمانوں کو بھی ماحضر تناول فرمانے کی ہر وقت دعوت دیا کرتے ہیں۔ داڑھی مونچھ صاف، اخباری کالم والی تصویر میں 1990ء کے شاہ رخ خان دکھائی دیتے ہیں۔ اگر آج دیکھا جائے، تو بھی وہی شاہ رُخ خان دکھائی دیتے ہیں، مگر درمیانی عمر والے۔ آواز میں دھیماپن، لہجہ پُرتاثیر، چال ڈھال میں سلاست روی، مہین مسکراہٹ اور روشن چہرہ جس سے متانت اور سنجیدگی ٹپکتی ہے۔
ابوتلتان صاحب یکم جون 1976ء کو یوسف زئی قبیلے کے اکاخیل خاندان میں احمد جان کے گھر برہ درشخیلہ میں پیدا ہوئے۔ ساتویں جماعت تک ریگولر تعلیم حاصل کی۔ پھر آٹھویں جماعت کا امتحان پشاور بورڈ سے پرائیویٹ طور پر پاس کیا، اور جماعت نہم میں داخلہ لے لیا۔ 1993ء کو میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ میٹرک کے بعد پرائیویٹ امتحان دیتے ہوئے اُردو میں ماسٹر ڈگری حاصل کی۔ تعلیم سے وابستگی ہی کی بنا پر بی ایڈ بھی کیا ہوا ہے۔
قارئین، آپ اپنے بچپن اور گاؤں کے دوستوں، ہم جماعت ساتھیوں اور رشتہ داروں سے راہ و رسم رکھتے ہیں۔ آپ کی زندگی میں کئی اتار چڑھاؤ آئے ہیں، لیکن جواں مردی دکھاتے ہوئے ہر قسم کے حالات و واقعات کا ڈٹ کر مقابلہ بھی کیا ہے۔ الجھی ہوئی زندگی کو سنوارنے کی غرض سے ہر قسم کی محنت مزدوری سے کبھی منھ نہیں موڑا، لیکن اس کے باوجود موصوف کو زندگی میں خاطر خواہ کامیابی نصیب نہ ہوسکی، جس کا ان کو افسوس بھی نہیں ہے۔ البتہ اپنے تلخ تجربات کو بروئے کار لاتے ہوئے کئی دیرینہ دوستوں اور رشتہ داروں کی سرپرستی کرکے انہیں کامیابی سے ہم کنار ضرور کیا ہے۔
ادب سے کس دور میں جڑے؟ یہ معلوم نہیں، تاہم پرائمری میں میاں نظیر جان مولوی صاحب (مرحوم) سے خوشخطی سیکھتے ہوئے قلم سے رشتہ جوڑ بیٹھے۔ بچپن ہی میں خط و کتابت ایک قسم کا مشغلہ بن کر رہ گیا۔ چوتھی جماعت میں پڑھتے تھے کہ پہلا خط تحریر کیا۔ بچپن ہی سے مطالعے کے شوقین تھے۔ ہر قسم کی کتب پڑھنے کا شوق تھا۔ سکول کے زمانہ میں مولانا مودودی کی خلافت و ملوکیت اور دیگر کتابیں مطالعہ کرچکے تھے۔ اسی طرح ٹارزن کی کہانیاں، مخلتف النوع ڈائجسٹ اور نسیم حجازی کے مختلف ناولوں کو گھول کر پی گئے۔
زندگی میں کسی چیز کی چوری نہیں کی۔ البتہ کتاب سے دلی لگاؤ کی وجہ سے اپنے بڑے بھائی سے پڑھنے کی خاطر کتابیں چوری کیا کرتے تھے۔ اپنی نصابی کتب محض امتحان میں کامیابی حاصل کرنے کی خاطر پڑھتے تھے۔ ادبی، تاریخی، سیاسی، جغرافیائی اور دیگر معلوماتی کتابیں جہاں سے ملتیں، انہیں لانے کی حتی الوسع کوشش کرتے تھے۔ علم و ادب سے دلی لگاؤ کی وجہ سے ڈھیر سارے شاگرد بھی رکھتے ہیں، جن میں ایک راقم (اخترحسین ابدالی) بھی شامل ہے۔
ادب، خط و کتابت، کتاب اور مطالعے کے جنون نے حکیم زے برادران کے ساتھ تعلق جوڑنے پر مجبور کیا، جن کی محفل آپ کے لیے کسی درسگاہ سے کم نہ تھی۔ حکیم زے برادران سے کچھ سیکھنے کی غرض سے روز ان کے ہاں جایا کرتے تھے۔ یہ سفر جاری تھا کہ فروری 2009ء میں ابدالی سکول اینڈ کالج (مٹہ) سے وابستہ ہوگئے، جہاں کے علم دوست اور دانشور پرنسپل بخت منیر صاحب نے ابدالی کالج کی لائبریری (ابدالی کتابتون) کی ذمہ داری انہیں سونپ دی۔ ساتھ ساتھ ابدالی ایجوکیشن سسٹم کے سالانہ میگزین "گلدستۂ ابدالی” کی ادارت بھی ان کے سپرد کی۔ اس سے آپ کو منفرد تجربہ حاصل ہوا۔ قلم کو مزید تقویت روزنامہ آزادی سوات کے ادارتی صفحہ نے دی۔ جب مذکورہ اخبار کے ادارتی صفحہ کے مدیر اور لفظونہ ڈاٹ کام کے بانی مدیر امجد علی سحابؔ نے ان کی تحاریر کو ادارتی صفحہ میں مناسب جگہ دی، اور تب سے اب تک سرپرستی کر رہے ہیں۔
ابوتلتان صاحب خداداد اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ اردو اور پشتو زبان و ادب پر انہیں دسترس حاصل ہے، جس کی مثال سر عزیزالحق کے تاثرات میں کچھ یوں ملتی ہے: "ساجد ابوتلتان صاحب کی ادیبانہ اور پیشہ ورانہ تکمیل ان کی ذاتی اور اخلاقی زندگی کے سنہرے اصولوں پر ہی ہوتی ہے، جس میں دیانت داری، ایمان داری، محنت، لگن اور جذبہ جیسے مواد سے ہمیشہ آراستہ پائے جاتے ہیں۔”
آپ نے اپنے دوستوں اور طلبہ کی حتی الوسع رہنمائی کی ہے۔ آپ اپنے طلبہ کو ہر ممکن فائدہ پہنچانے کی کوشش میں ہمہ وقت کوشاں رہتے ہیں۔ اسی طرح اکبر علی آبشارؔ آپ کے بارے میں کچھ یوں رقم کرتے ہیں: "آپ زندگی کی ہر مشکل کا صبر و تحمل سے مقابلہ کرنے کے عادی ہیں۔ ہر مسئلے کا حل غور و فکر سے نکالتے ہیں۔ گفتگو میں انتہائی نفیس لہجے کا انتخاب، سلاست اور حوالہ جات آپ کے اندازِ تخاطب کو قابل تعریف بناتے ہیں۔ سننے والے پر آپ کی گفتگو کبھی بوجھ نہیں بنتی۔ کیوں کہ آپ کی گفتگو علمی ہونے کے ساتھ ساتھ مِزاحیہ اور طنزیہ ہوتی ہے جو لوگوں کو محظوظ کرنے کا سامان بنتی ہے۔”
آپ کے حوالہ سے ڈاکٹر بدرالحکیم حکیم زے صاحب اپنے تاثرات کچھ یوں لکھتے ہیں: "ساجد علی خان انتہائی ایمان دار، دیانت دار، مخلص، صادق و امین، خوددار، مستقل مزاج اور دوستی میں وفادار ہیں۔ میں کافی تحقیق اور بحث و مباحثہ کے بعد یہ بات دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ ساجد علی ابوتلتان واقعات پر نہیں بلکہ ان کے محرکات اور نتائج پر نظر رکھتے ہیں اور اپنے دلائل اور تجزیات سے حل کی طرف بڑھتے ہیں۔”
آپ کے لکھنے کا انداز یکسر مختلف ہے۔ آپ کی زیرِطبع کتاب ایک نیا شاہکار ہوگی جو لکھنے کی روایت بدل ڈالے گی ، اِن شاء اللہ! اگر آپ خیبر پختون خوا کے نہیں، تو سوات کے تو "ابن خلدون” بننے جا رہے ہیں۔
خیرالحکیم حکیم زے، آپ کے بارے میں کچھ یوں فرماتے ہیں: "برہ درشخیلہ کے یوسف زئی قبیلے اور اکاخیل گھرانے کے چشم و چراغ، بہترین کالم نگار، افسانہ نگار، تاریخ دان اور چھپے رستم ساجد علی خان ابو تلتان کے بارے میں کون جانتا تھا کہ یہ خوبصورت نوجوان آگے جاکر ایک محقق اور لکھاری بنے گا، جنہوں نے ایسی عرق ریزی سے کام کیا کہ میری لکھی ہوئی تاریخ کی کتاب "د بر سوات تاریخ” کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ اللہ کرے کہ یہ جذبہ اور سلسلہ تاحیات جاری و ساری رہے، آمین!”
قارئین! مَیں اگر آج کچھ ضبطِ تحریر میں لانے کے قابل ہوں، تو اس کا سہرا تین شخصیات بخت منیر صاحب، ساجد ابوتلتان اور امجد علی سحابؔ کے سر ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے توفیق دی، تو ذکر شدہ شخصیات بارے بھی اپنے جذبات و احساسات کو الفاظ کا جامہ پہناوں گا۔
جاتے جاتے یہی کہوں گا کہ یقیناً ساجد ابوتلتان جیسے لوگ دوسروں کے لیے چراغ ثابت ہوتے ہیں، جو خود تو جل کر راکھ ہوجاتے ہیں، مگر دوسروں کو روشنی دے دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو لمبی زندگی اور اچھی صحت سے نوازے، آمین!
تھوڑی سی تحریف کے ساتھ ایک شعر آپ کے نام کرنا چاہوں گا کہ
ایک روشن دماغ ہے، اور رہے
شہر میں اک چراغ ہے، اور رہے

………………………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔