ہر شخص کی کوشش اس کے حوصلے اور مقدور تک ہوتی ہے۔ جہاں تک آدمی کی دسترس ہو، اس سے آگے نہیں جاسکتا۔ اس کہاوت کے وجود میں آنے کا سبب ایک چھوٹی سی حکایت ہے جو اس طرح بیان کی جاتی ہے:
کسی گاؤں میں ایک مُلّا جی رہتے تھے۔ وہ اکثر اپنی بیوی اور اپنے گھر والوں سے لڑتے رہتے تھے۔لڑائی کے دوران میں ان کا ایک ہی تکیہ کلام ہوتاکہ ’’اگر تم لوگوں نے مجھے زیادہ تنگ کیا، تو میں پردیس چلا جاؤں گا اور تم لوگوں کو کبھی اپنا منھ نہ دکھاؤں گا۔‘‘ ایک دن اپنی بیوی سے لڑتے ہوئے انہوں نے یہی کلمہ دہرایا۔ بیوی نے ناک بھوں سکوڑ کر کہا: ’’روز روز کہتے ہو، کہ پردیس چلا جاؤں گا، پردیس چلا جاؤں گا، تو چلے کیوں نہیں جاتے؟‘‘مُلّا جی کو بات لگ گئی۔ انہوں نے کہا: ’’مَیں طعنے سننے کا عادی نہیں۔ لو، مَیں جاتا ہوں۔ اب تم اکیلے عیش کرنا۔‘‘ یہ کہہ کر مُلّا جی طیش میں گھر سے روانہ ہوکر نزدیک کی ایک مسجد میں جا بیٹھے۔ بیوی کو جب پتا چلا کہ مُلّا جی پردیس کے بجائے محلے کی مسجد میں جا بیٹھے ہیں، تو وہاں پہنچ گئی اور ان سے مخاطب ہوکر کہنے لگی: ’’واہ میرے پردیس کے جانے والے، کیا ہوا! بس مُلّا کی دوڑ مسجد تک!‘‘
(ڈاکٹر شریف احمد قریشی کی تصنیف ’’کہاوتین اور ان کا حکایتی و تلمیحی پس منظر‘‘ مطبوعہ ’’دارلنور، لاہور‘‘ اشاعت 2012ء، صفحہ 260 تا 261 انتخاب)