یہ تلمیحی ضرب المثل ایسے موقعوں پر بولتے ہیں جب حصولِ مطلب میں کافی دیر ہو یا بہت سا کام باقی رہ گیا ہو، یعنی منزلِ مقصود ابھی دور ہے۔
اس تلمیحی ضرب المثل کی نسبت ’’تاریخِ فرشتہ‘‘ میں لکھا گیا ہے کہ غیاث الدین تغلق گو بظاہر سلطان المشائخ حضرت نظام الدین اولیا محبوبِ الٰہی سے کچھ کہتا سنتا نہ تھا، مگر بباطن ازحد کاوش و عداوت رکھتا تھا۔ چناں چہ جس وقت وہ بنگال سے واپس ہوا، تو اس نے ایک قاصد کے ذریعہ حضرت نظام الدین اولیا کے حضور میں پیغام بھجوا یا کہ آپ میرے پہنچنے سے قبل دہلی خالی کر دیں اور اپنے مسکن غیاث پور سے بھی ہاتھ اٹھائیں۔ چوں کہ حضرت محبوبِ الٰہی ایک دوسرے ہی عالم میں بیٹھے تھے۔ آپ کو یہ پیغام ناگوار گزرا۔ آپ نے پیغام کے جواب میں صرف اتنا فرمایا: ’’بابا ہنوز دلّی دور است‘‘ یعنی ابھی دلّی دور ہے۔ مقصد یہ کہ ابھی وہ پہنچ جائے، تو ہی یہ منصوبے ظاہر کرے۔ مرضیِ مولا کس کو خبر ہے؟ اگرچہ پہلے آپ خود کئی مرتبہ اس جگہ کو چھوڑ چکے تھے، مگر اب کی دفعہ مطلق ارادہ نہیں کیا۔ چناں چہ خود بادشاہ ہی کو دلّی کے قریب پہنچ کر اپنے شہر میں قدم رکھنا نصیب نہیں ہوا۔ وہ قصرِ تغلق کے نیچے جو اُس کے بیٹے نے افغان پورمیں اپنے باپ کے ٹھہرنے کے واسطے تعمیر کروایا تھا، دب کر مر گیا۔
(ڈاکٹر شریف احمد قریشی کی تصنیف ’’کہاوتین اور ان کا حکایتی و تلمیحی پس منظر‘‘ مطبوعہ ’’دارلنور، لاہور‘‘ اشاعت 2012ء، صفحہ 28 اور 29 سے انتخاب)