بلاغت کے ساتھ ایک اور لفظ مستعمل ملتا ہے جسے فصاحت کہتے ہیں۔ اس لیے یہ دونوں الفاظ ’’فصاحت و بلاغت‘‘ مرکبِ عطفی کی صورت میں یکجا نظر آتے ہیں، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ دونوں الفاظ ایک دوسرے کے لیے لازم ملزوم ہیں اور ایک جامع مفہوم لیے ہوئے ہیں۔ اگرچہ بلاغت کی طرح فصاحت بھی اپنا الگ مفہوم رکھتا ہے، یعنی کلام میں ایسے الفاظ کا استعمال جو روزمرہ، محاورے اور موقع و محل کے مطابق ہوں اور چند نقائص سے پاک ہوں جیسے: ضعفِ تالیف، تعقید، تنافر، کثرتِ تکرار، غرابت، مخالفتِ قیاس وغیرہ۔
اب آتے ہیں مختلف لغات کے حوالوں کی طرف:
1:۔ فرہنگِ آصفیہ: فصاحت (ع) مونث: کشادہ سخنی، تیز زبانی، خوش کلامی، خوش گفتاری، علم بیان کی اصطلاح میں تراکیب، غیر مانوس الفاظ، ثقیل و درشت و مشکلہ سے کلام کا پاک ہونا۔
2:۔ نوراللغات: خوش بیانی، خوش کلامی، (اصطلاحِ علمِ معانی) کلام میں ایسے الفاظ ہونا جن کو اہلِ زبان بولتے ہوں۔ جس میں انوکھی ترکیبیں، ثقیل، بھدے، غیر مانوس، مغلق، خلافِ محاورہ الفاظ و مرکبات نہ ہوں۔ ایسی تعریف تقریباً علمی لغت، فیروز اللغات وغیرہ میں بھی ملتی ہے۔
3:۔ اصطلاحاتِ نقد و ادب: فصاحت کا مادہ ’’فصح‘‘ سے ہے جس کے معنی خوش بیانی کے ہیں۔ فصاحت سے مراد یہ ہے کہ جملے اور فقرے میں الفاظ و محاورے کی ادائیگی میں مستند اہلِ زباں کی پیروی کی جائے۔
مولانا شبلی نعمانی کے مطابق:۔ علمائے ادب نے فصاحت کی یہ تعریف کی ہے کہ لفظ میں جو حروف آئیں، ان میں تنافر نہ ہو۔ الفاظ نامانوس نہ ہوں۔ قواعدِ صرفی کے خلاف نہ ہوں۔ الغرض، مختلف ادبی و تنقیدی اصطلاحات کی کتب میں تقریباً تقریباً یہی مشترکہ تعریف ملتی ہے۔
فصاحت و بلاغت دونوں کو استعمال کرنے کا مطلب یہ ہے کہ کلام میں ان دونوں کی وجہ سے ان الفاظ کا انتخاب کیا جائے جو بولنے، سننے اور لکھنے میں موزوں اور مناسبِ حال ہوں۔ اُردو اہلِ زباں کی بول چال کے مطابق بھی ہوں۔ مفہوم و معانی کے لحاظ سے ان کی وضاحت ایسی ہو کہ اصل مفہوم تک باآسانی رسائی ممکن ہو۔ اصطلاحی مفہوم کے لحاظ سے لفظ ’’فصاحت‘‘ کوئی اور مفہوم نہیں رکھتا اور نہ یہ کوئی الگ خاص علم ہے۔ ہاں، شعر و ادب میں استعمال کے وقت جمالیاتی پہلوؤں کو مد نظر رکھا جاتا ہے۔ اس وقت فصاحت اور بلاغت کی اصطلاحیں استعمال کی جاتی ہیں۔ اُس وقت کلام میں مستعمل الفاظ اور معنی کے حسن کو دیکھا جاتا ہے، جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ فصاحت کا تعلق لفظ کے حسن و خوبی سے ہے اور بلاغت معنوی حسن و خوبی سے بحث کرتی ہے۔ اس مفہوم کو ایک شاعر نے کیا خوب واضح کیا ہے:
اثر ہو سننے والوں پر بلاغت اُس کو کہتے ہیں
سمجھ میں جلد جو آئے فصاحت اس کو کہتے ہیں
لیکن جب لفظ ’’بلاغت‘‘ کو الگ بہ طورِ اصطلاح زیرِ بحث لایا جاتا ہے، تو اس وقت اس سے وہ فن یا علم مراد لیا جاتا ہے جو تین شاخوں ’’علمِ معانی، علمِ بیان اور علمِ بدیع‘‘ پر مشتمل ہو، جس کی بدولت کلام دلکش اور مقتضائے حال بنتا ہے۔
آئندہ کی نشست میں ان دو علوم ’’بیان و بدیع‘‘ کو زیر بحث لانا مقصود ہے۔ یار زندہ صحبت باقی!

…………………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔