ایک دن محمد رفیع سوداؔ کسی مشاعرے میں بیٹھے تھے۔ لوگ اپنی اپنی غزلیں پڑھ رہے تھے۔ ایک شریف زادے کی بارہ تیرہ برس کی عمر تھی۔ اس نے غزل پڑھی۔ مطلع تھا:
دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
گرمیِ کلام پر سوداؔ چونک پڑے۔ پوچھا، یہ مطلع کس نے پڑھا؟ لوگوں نے کہا، حضرت! یہ صاحبزادہ ہے۔ سوداؔ نے بھی بہت تعریف کی۔ بہت مرتبہ پڑھوایا اور کہا کہ "میاں صاحبزادے جوان ہوتے نظر نہیں آتے۔” خدا کی قدرت انہی دنوں میں وہ لڑکا جل کر مرگیا۔
(ڈاکٹر علی محمد خان کی کتاب "کِشتِ زعفران” مطبوعہ "الفیصل” پہلی اشاعت فروری 2009ء، صفحہ نمبر 20 سے انتخاب)