اردو تھیٹر کے آغاز سے قبل برصغیر پاک و ہند میں جو ڈرامائی سرگرمیاں مروج تھیں، ان میں نوٹنکی کا ایک خاص مقام ہے۔
نوٹنکی کو ادنیٰ درجے کا عوامی تھیٹر قرار دیا جاسکتا ہے۔
عشرت رحمانی نوٹنکی کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’سنگیت یا سانگیت کی ابتدا قدیم ہندی ڈراما کے زوال کے ساتھ ہوئی۔ یہ رقص و نغمہ اور نقالی کی ملی جلی پیشکش تھی۔ اردو تھیٹر کی ابتدا میں نوٹنکی کا سب سے زیادہ حصہ ہے۔ نوٹنکی میں جو تمثیل پیش کی جاتی ہے، اس کو گیت یا سانگیت (یعنی غنائیہ ناٹک) کہتے تھے۔ اس لیے نوٹنکی اور سنگیت کے لفظ ساتھ ساتھ رائج ہیں۔ سنگیت کے ترقی یافتہ دور میں نظم کے ساتھ مکالموں میں نثر کو بھی شامل کر دیا گیا۔‘‘
(ابوالاعجاز حفیظ صدیقی کی تالیف "ادبی اصطلاحات” کا تعارف مطبوعہ "اسلوب، لاہور”، اشاعتِ اول مئی 2015ء، صفحہ 500 سے انتخاب)